۲… ’’جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے۔‘‘ (انوار الاسلام ص۳۱، خزائن ج۹ ص۳۱)
مسلمانوں سے قطع تعلق تمہیں دوسرے فرقوں کو:
۱… ’’جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلی ترک کرنا پڑے گا۔‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۷۵، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
۲… ’’غیراحمدیوں سے دینی امور میں الگ رہو۔‘‘ (نہج المصلی ص۳۸۲)
۳… ’’تمام اہل اسلام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
۴… ’’مسلمانوں کی اقتداء میں نماز حرام وناجائز ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۲۷، انوار خلافت ص۹۰)
۵… ’’مسلمانوں سے رشتہ وناطہ حرام وناجائز ہے۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۴)
۶… ’’کسی مسلمان کا جنازہ نہ پڑھو۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۲)
۷… ’’غیراحمدیوں کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ حتیٰ کہ غیراحمدیوں کے معصوم بچوں کے جنازے بھی جائز نہیں۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۳)
سرظفر اﷲ نے ان ہی تعلیمات کے پیش نظر حضرت قائداعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ ان قادیانی تعلیمات کی روشنی میں ہر ذی فہم مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ قادیانیوں کا عام مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے پاکستان بننے سے کہیں پہلے انگریز حکومت کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ’’ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لئے کیوں مضطرب ہیں؟ ملت اسلامیہ کو اس مطالبے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ اگر حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو مسلمانوں کو شک گذرے گا کہ حکومت اس نئے مذہب کی علیحدگی میں دیر کر رہی ہے۔ کیونکہ قادیانی ابھی اس قابل نہیں کہ چوتھی جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کی برائے نام اکثریت کو ضرب پہنچا سکیں۔‘‘
علامہ اقبالؒ نے حکومت کے طرز عمل کو جھنجھوڑتے ہوئے مزید فرمایا: ’’اگر حکومت کے لئے یہ گروہ مفید ہے تو وہ اس کی خدمات کا صلہ دینے کی پوری مجاز ہے۔ لیکن اس ملت کے لئے اسے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ جس کا اجتماعی وجود اس کے باعث خطرہ میں ہے۔‘‘