جائے گا۔‘‘ یہ انداز فکر اسی اکھنڈ بھارت کے بنانے کی نشاندہی کرتا ہے۔ جس کی آرزو لئے ہوئے مرزابشیر الدین قبر میں جا گھسے۔ پاکستان پر قبضہ جمانے کی بھی ملاحظہ فرمائیے۔
۲… ’’بلوچستان کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے۔ زیادہ آبادی کو احمدی بنانا مشکل ہے۔ لیکن تھوڑے آدمیوں کو تو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں۔ پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد احمدی بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنالیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہو جائے گا۔ جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے۔ پس اس جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کے لئے یہ عمدہ موقع ہے۔ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ پس تبلیغ کے ذریعے بلوچستان کو اپنا صوبہ بنالو کہ تاریخ میں آپ کا نام رہے۔‘‘ (مرزامحمود احمد کا بیان الفضل نمبر۸۳، ص۴ ج۲، مورخہ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ئ)
۳… ’’جب تک سارے محکموں میں ہمارے آدمی موجود نہ ہوں۔ ان سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فنانس ہے، اکاؤنٹس ہے، کسٹمز ہے، انجینئرنگ ہے۔ یہ آٹھ دس موٹے موٹے صیغے ہیں جن کے ذریعے سے جماعت اپنے حقوق محفوظ کرا سکتی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت میں فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور ہم اس سے اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بیشک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں۔ لیکن نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے۔ جس سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔ پیسے بھی اس طرح کمائے جائیں کہ ہر صیغے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہر جگہ ہماری آواز پہنچ سکے۔‘‘
(خطبہ مرزامحمود احمد الفضل مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۴ئ)
اس خطبے کے بعد قادیانیوں نے منظم طریقے سے پاکستان کی عدلیہ، انتظامیہ اور افواج پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے علاوہ فوجی انداز میں خدام احمدیہ اور دوسرے محکمے مثلاً نظارت امور داخلہ، نظارت امور خارجہ بنا کر ریاست اندر ریاست کی تشکیل کی۔
پچھلے دنوں ائیرفورس سے ظفر چوہدری کے اخراج کے بعد سے قادیانی پورے ملک کے مسلمانوں کو اشتعال دلا کر ملک میں خود تشدد کے واقعات پیدا کر کے فوجی انقلاب لانے کے لئے راہیں ہموار کر رہے ہیں۔