حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپ کی رشتہ داریاں سہارنپور اور اسکے مواضعات ،مظفر نگر اور اسکے قصبات وگاؤں میں پھیلی ہوئی تھیں، یہ دونوں ضلع اور ان کے قصبات ودیہات بڑے مردم خیز رہے ہیں، صدیوں سے ان علاقوں میں علماء ومشائخ رہتے اور بستے آئے ہیں دینداری ایسی عام تھی کہ ہندوستان کے کسی علاقے میں ایسی دینداری نہ تھی۔ سہارنپور ،ضلع مظفر نگر علماء اور مشائخ اہل دین وسیاست کے مرکز رہے ہیں، حضرت سید احمد شہید ؒ نے ان دونوں ضلعوں کا دورہ کیا اور گاؤں گاؤں بکثرت مردوں اور عورتوں ،خواص اور عوام نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے عشق ومحبت سے اپنے سوتے ہوئے دلوں کو زندہ وتابندہ کیا مولانا سیدعبدالحی صاحب حسنی ؒ لکھتے ہیں: ’’اس وقت تک سہارنپور کے جسقدر قصبوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں ہرفرد بشر کو سید صاحب کادم بھرتے پایا ہے، جوہے ان کی محبت میں چور ہے۔۔۔ میں نے اپنی عمر میں سیدصاحب کااتنا چرچا کہیں نہیں دیکھا۔‘‘ حضرت سید صاحب انبہٹہ بھی گئے نانوتہ بھی تشریف لے گئے اور سہارنپور میں بھی قیام، ان کے علاوہ کاندھلہ اور دوسرے علاقوں میں بھی آپ کے قدم پڑے اور ان علاقوں کے علماء ومشائخ نے آپ سے بیعت کی اور استفادہ کیا اس کے علاوہ مقامی طور پر بھی ان علاقوں میں علماء ومشائخ بکثرت ہوتے رہے، حضرت شاہ ابوالمعالی قصبہ انبہٹہ کے ایک نامور شیخ تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے فرزندان گرامی اور حضرت مولانا محمد عاشق پھلتی، پھلت ضلع مظفر نگر کے رہنے والے تھے، شیخ الاسلام مولانا عبدالحی اور ان کے بلند پایہ صاحبزادہ مفتی عبدالقیوم صاحب وطن بڑھانہ ضلع مظفر نگر تھا۔ حضرت شاہ محمد اسحق اور حضرت شاہ محمد یعقوب جوہندوستان کے مشہور وممتاز ترین علماء ومشائخ اور اہل وفضل کے استاذ تھے، اسی علاقہ کے باشندے تھے، مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی، مولانا محمد قاسم صاحب اور مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی، نانوتہ کے حضرت حاجی امداداللہ صاحب تھانوی، حافظ ضامن شہید تھانوی، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ، مفتی الٰہی بخش صاحب کاندھلوی ،مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی ،مولانا محمد ساجد صاحب جھنجھانوی، حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب جھنجھانوی ، مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی، شیخ محمد صاحب تھانوی، میاں جی نورمحمد صاحب جھنجھانوی ،مولانا عبدالرحیم صاحب ولایتی سہارنپوری، شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی وغیرہ ؒ ان ہی ضلعوں کی زینت اور ان کے قصبات ودیہات کے سرمایہ فخر وعزت رہے ہیں۔ ان ضلعوں کے قصبات تھانہ بھون، کیرانہ، کاندھلہ، شاملی ،پھلت،کھتولی، جانسٹھ، انبہٹہ، نانوتہ، گنگوہ، جھنجھانہ ، بڑھانہ ،دیوبند ، منگلور ، رائے پور، رام پور منہیاران ایسے مردم خیز اور ایسے سر سبز شاداب اور علوم ودینداری کے ایسے مرکز رہے ہیں جن کی مثال اور کہیں نہیں ملتی، ان میں سے کوئی قصبہ ایسا نہ تھا جہاں مسلسل علماء ومشائخ نہ پیدا ہوئے ہوں، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی ولادت سے پہلے اور بعد تک ان قصبات میں اہل علم اور اصحاب فضل وکمال کا جمگٹھارہاہے اور اب تک ان مقامات میں علم