حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے داماد ، اس وقت بمبئی میں مقیم ہیں ، اور قومی خدمت وصحافت میں مشغول ہیں۔ اس کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے ساتھ تعلیم دین میں مشغول ہوئے، اور انہیں کے ساتھ حضرت مولانارشید احمد گنگوہی سے بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے۔ مولانا صدیق احمد صاحب کی والدہ ماجدہ بی امۃ اللہ بنت سید حسن عسکری شہید ؒ (۱)تھیں، جن کو حیا وپاکدامنی غیرت وحمیت اور دینداری اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ مولانا صدیق احمد صاحب دیوبند سے فراغت کے بعد اسی مدرسے میں مدرس ہوگئے اس کے بعد مالیر کوٹلے میں مفتی کے عہدے پر سرفراز کئے گئے، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ کو آپ سے بہت تعلق اور محبت تھی، آپ کے نام ایسے خطوط تحریر فرمائے جن کے پڑھنے سے آپ کے مرتبے کی بلندی اور معرفت وسلوک میں آپ کے درجے کا علم ہوتاہے، ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: ’’آپ کا خط آیا موجب فرحت وسرور ہوا، الحمدللہ علی احسانہ کہ آپ کو اس ذات پاک نے اپنا بنایا، اور اپنی نسبت عطا فرمائی۔ظاہر باخلق باطن باحق کیا، کجا خود شکرایں نعمت گذارم، یہ سب عنایات پاک پروردگار تعالیٰ شانہٗ کی ہیں۔ آپ کا حال حضرت سلمہٗ(حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ ) کی خدمت میں عرض کیا تھا، وہاں سے حکم آیا کہ اجازت اخذ بیعت وتلقین دینا چاہئے۔ ‘‘(مکاتب رشید ۲۸) اسی طرح کے تقریبا پچیس خطوط ہیں، جو مکاتیب رشیدیہ میں مندرج ہیں۔ (۱)سید حسن عسکری کا وطن قصبہ رام پور منہیاران ضلع سہارنپور تھا، ان کی شادی انبہٹہ میں انصاری خاندان میں ہوئی تھی، مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ان کے بیٹے کے معتقد تھے، وہ بادشاہ کے پیر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ۱۸۵۷ھ میں بغاوت کے الزام میں انگریزوں کاان پر بھی عتاب ہوا، وہ دہلی سے انبہٹہ آکر روپوش ہوئے، ان کے داماد شاہ حبیب محمد جو مولانا صدیق احمدصاحب کے والد تھے اور ان کے سارے بھائیوں نے وفاداری کاثبوت دیا، جب پولیس آئی تو سارے بھائی گرفتار ہوگئے اور پناہ گیر شاہ حسن عسکری کی موجودگی کی خبر تک نہ کی۔ شاہ حسن عسکری نے یہ حال دیکھا تو خود حاضر عدالت ہوگئے اور اپنے کو سپرد کردیا، انگریزوں نے ان کو پھانسی دیدی۔ مولانا صدیق احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دین ودنیا کی نعمتوں سے پوری طرح نوازا تھا، سخاوت وفیاضی ،صلہ رحمی کابڑا جذبہ عطا ہوا تھا، باجود کثیر العیال ہونے کے اپنے خاندان اور وطن کے نادار لوگوں او ر یتیموں کی ہمیشہ مدد کرتے رہے۔ ۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۵ء میں انتقال ہوا، انتقال سے پہلے زبان پر ذکر جاری تھا۔ مولاناصدیق احمد صاحب نے اپنی یادگار میں جواولاد چھوڑی، ان میں مولانا فاروق احمد زیادہ مشہور تھے، جو ریاست بھاولپور میں شیخ الحدیث رہے، ان کے علاوہ مولوی شفیق احمد اور مولوی جمیل احمد دو اور صاحبزادے تھے، ایک صاحبزادی تھیں جو حضرت مولانا خلیل احمدصاحب سہارنپوری کی بہو تھیں، اولاد کے علاوہ تین بھائی تھے: 1 منیر احمد