حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہے۔ مولانا سید اصغر حسین صاحب دیوبندی اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں بزمانہ اخیر حضرت نے مہتمم صاحب مرحوم (حضرت حافظ صاحب)کے اخلاص ومحبت کے ذکر میں نہایت وثوق کے ساتھ فرمایا کہ حافظ احمد صاحب کے اہتمام کے متعلق حضرت مولانا گنگوہی کی خدمت میں سب سے اول میں نے تحریک کی تھی، اس وقت تک کسی کوخیال بھی نہ تھا ، اور فرمایا تحریک کرکے ہی نہیں چھوڑی بلکہ حسب موقع یاددہانی اور تائید بھی کرتارہا، احقر نے عرض کیا کہ یہ حضرت کی بصیرت تھی کہ عمدہ انتخاب فرمایا جس سے دارالعلوم کو اتنی ترقی ہوئی۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل :۱۷۶) یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مولانا جس وقت حافظ احمد صاحب کے مہتمم ہونے کے سلسلے میں حضرت گنگوہی سے عرض کررہے تھے، اور اس کی تحریک کرنے والوں کی صف اول میں تھے، کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو آپ کی شکایت حضرت گنگوہی کی خدمت میں کرتے تھے بلکہ خود حضرت مولانا سے یہ کہا کرتے تھے: ’’آپ سعی تو کررہے ہیں مگر حافظ احمد صاحب کے مہتمم ہوجانے کے بعد آپ مدرسہ میں نہیں رہ سکتے کہ وہ آپ کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے جس نگاہ سے ان کے باپ نے آپ کے ماموں(مولانامحمد یعقوب صاحب نانوتوی) کو دیکھا۔‘‘(تذکرۃ الخلیل: ۱۷۷) اس بات پر آپ کے لبوںپر مسکراہٹ آگئی اورپورے اعتماد ویقین کے ساتھ جواب دیا: ’’میں رہوں یا نہ رہوں مدرسہ ترقی عروج کے زینے پر چڑھتا رہے کہ میرے لئے دوسرا دروازہ مفتوح ہوجائے گا یہ نہیں ہوسکتا کہ اپنی تنخواہ کی خاطر مدرسہ کی ترقی کاخیال چھوڑدوں۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۷۷) آپ کے اس مسکت جواب نے اعتراض کرنے والوں اور شکایت پہنچانے والوں کی زبانوں کو بند کردیا اور آپ کی یہ تحریک مدرسہ کے حق میں اتنی مفید اور کامیاب ہوئی کہ مدرسہ حضرت حافظ احمد صاحب کے مہتمم ہونے کے بعد ترقی کرتا رہا حضرت حافظ صاحب اس مدرسہ کے مہتمم ۱۳۱۴ھ سے ۱۳۴۷ھ تک پورے ۲۳سال رہے اور مدرسہ ترقی کے منازل طے کرتارہا۔