حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے تھے، جو ان اور تندرست حضرات ان کے پیچھے جاکر قرآن شریف سنتے اور کمزور یا سن رسیدہ حضرات نہیں جاسکتے تھے۔ حضرت مولانا خلیل احمدصاحب اور مولانا صدیق احمد صاحب نیز آپ دونوں کے ایک عزیز اور ہم عمر مولوی اسحاق صاحب، حافظ رحیم بخش کے پیچھے قرآن شریف سنتے تھے، ایک مرتبہ ان تینوں نے مشورہ کیاکہ اس مرتبہ حافظ صاحب سے عرض کیاجائے کہ محلہ کی مسجد میں قرآن شریف سنادیں تاکہ معذور، اور بوڑھے نمازی بھی شریک ہوسکیں، یہ تینوں حافظ صاحب کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اس مرتبہ آپ بجائے اس مسجد کے ہمارے محلے کی مسجد میں قرآن سنادیجئے تاکہ سارے حضرات سن سکیں، اس درخواست پر حافظ صاحب نے کوئی توجہ نہ دی، ان حضرات کے اصرار پر وہ حافظ صاحب خفا ہوکر کہنے لگے: ’’ایسا ہی قرآن سننے کا شوق ہے تو خود حفظ کیوں نہیں کرلیتے، حدیث پڑھنے کے لئے تھے قرآن یاد نہیں ہوتا۔‘‘ حافظ صاحب کے منہ سے نکلے ہوئے یہ جملے حضرت مولانا کے غیور دل میں تیر بن کر اتر گئے اور اس طعنے نے دل کاکام کردیا، آپ کے ساتھ مولانا صدیق احمد اور مولوی اسحاق بھی بے چین اور مضطرب ہوگئے اور ایک ایسی خلش لے کر اٹھے جس نے حفظ قرآن میں تینوں کو لگادیا، گھر پہنچ کر تینوںنے مشورہ کیا کہ آئندہ سال ہم میں کاہرشخص، الگ الگ، دس دس پارے حفظ کرکے مدرسے سے لوٹے، ایک شروع کے دس، دوسرا درمیان کے دس اور تیسرا آخر کے دس پارے حفظ کرے اور تینوں نے اپنے اپنے پارے متعین کرلئے۔ حضرت مولانا رمضان بعد مظاہرالعلوم لوٹے اور تعلیم کے اوقات سے فارغ ہوکر قرآن مجید حفظ کرنا شروع کردیا، جتنا جتنا حفظ کرتے ، طبیعت میں شگفتگی، زبان میں روانی اور وقت میں برکت ترقی کرتی گئی، ذہن رسا پایا تھا اور حافظہ قوی، دس پارے ہوئے، ہمت نے شوق دلایا، دوسرا دسواں حصہ شروع کردیا، جو یاد کرتے وہ نمازوں میں اور نمازوں کے باہر پڑھتے، اور کیف وسرور حاصل کرتے، شعبان کے آتے آتے دس پاروں کے بجائے پورا قرآن شریف یاد ہوگیا، تعطیل میں گھر واپس ہوئے تو آپ مکمل حافظ قرآن تھے،دوسری طرف مولوی اسحاق صاحب اپنے مقرر کئے ہوئے دس پارے یاد کرنے لگے مگر شعبان کے آنے پر بجائے وطن آنے کے اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول کرلیا، مولانا صدیق احمد صاحب رمضان میں حسب وعدہ پارے یاد کرکے گھر لوٹے، گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب بجائے دس پارے کے پورے قرآن شریف کے حافظ ہوگئے اب جو سنتا حفظ قرآن کا شوق اس کے دل میں موجزن ہوجاتا۔ مولانا صدیق احمد کے حقیقی بھائی مولوی انوار احمد صاحب نے حفظ قرآن کا ارادہ کیا اور تین سال کے اندر وہ بھی حافظ قرآن ہوگئے اور محلہ اور اسکے پاس کی تین مسجدوں میں ہر سال قرآن شریف ہونے لگا۔