حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پیدائش کا ہے۔ مولانا ابوالحسن کے بلند پایہ صاحبزادہ مولانا نورالحسن حضرت شاہ محمد اسحق محدث دہلوی کے شاگرد تھے، سر سید احمد خان کو ان سے خصوصی تلمذ کاشرف حاصل تھا۔ مولانا نورالحسن کے صاحبزادوں اور اخلاف میں اس وقت تک مسلسل اہل علم اور باکمال حضرات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ مفتی الٰہی بخش کے نامور بھتیجے حضرت مولانا مظفر حسن کاندھلوی (م ۱۲۸۲ھ) اپنے وقت کے بڑے بزرگوں میں تھے، انہی سے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے والد ماجد بیعت تھے۔ اسی خاندان عالی مقام کی ایک شاخ وہ ممتاز شاخ ہے جس میں مولانا محمد مصطفیٰ جھنجھانوی اور مولانا محمد صابر جھنجھانوی تھے جنہوں نے حضرت سید احمد شہید ؒ کے ساتھ جہاد میں شرکت کی اور مولانا محمد مصطفیٰ شہید ہوئے، اسی خاندان کے مایہ ناز فرد فرید مولانا محمد اسماعیل (م ۱۳۱۵ھ) (۱)پھر ان کے تینوں صاحبزادے حضرت مولانا محمد کاندھلوی، حضرت مولانا محمد یحی اور مولانا محمد الیاس صاحب پھر ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد یوسف ؒ سے کون ایسا شخص ہے جو ناواقف اور ان بزرگوں کی دینی جدو جہد اور اس کے نتائج وثمرات سے بے خبر ہوگا۔ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدیحیٰ کے خلف الرشید ہیں، جن کے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے تعلق، وابستگی کاحال آپ اس کتاب میں جابجا پڑھیں گے۔ مختصرا مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کاتاثر پڑھتے چلئے: (۱) مولانا محمد اسماعیل نے کاندھلہ سے دہلی کا سفر کیا اور بستی حضرت نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد میں قیام کیا اور ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی، میوات کے بچے اس میں پڑھتے تھے، اور اسی دور سے میوات سے تعلق پیدا ہوا، اور بعد میں چل کر یہ پورا علاقہ مولانا محمد اسماعیل ان کے صاحبزادے مولانا محمد اور پھر مولانا محمد الیاس کی کوششوں سے دعوت وتبلیغ کامرکز بن گیا، اور لاکھوں کی یہ آبادی مبلغ وداعی بن گئی، اور چند سالوں میں ایسا دینی انقلاب آیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ ’’شیخ کی زندگی اپنے علمی انہماک، خدمت خلق، یکسوئی اور شدید مصروفیت کے اعتبار سے اس بیسویں صدی میں ان علمائے سلف کی زندہ یادگار ہے جن کا ایک ایک لمحہ عبادت وخدمت اور علم کی نشرواشاعت کے لئے وقف تھا، اور جن کے کارنامے دیکھ کر ان کے اوقات کی برکت، ان کی جفا کشی اور بلند ہمتی اور ان کی جامعیت کے سامنے آدمی تصویر حیرت بن کے رہ جاتاہے اور ان کی روحانیت تائید الٰہی کے سوا اس کی کوئی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف :۱۰۷) کاندھلہ کے اس گھرانہ کے مرد تو علم وفضل میں یکتائے روزگار تھے ہی، عورتیں تک علم وعمل اور زہدوتقویٰ میں ممتاز درجہ رکھتی تھیں۔ اسی گھرانہ کی ایک شمع فروزاں مولانا محمد ادریس کی ذات تھی، جو نہایت متبحر عالم اور محدث تھے۔