احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
رکھتی ہیں۔ ایک عبارت (جو قابل تاویل ہے) کو دستاویز بنا کر الگ ہوئے۔ یہ کوئی صحیح اورقابل قدر خدمت نہیں۔ ہاں ایک بات ایسی ہے۔ اگر اس کو لاہوری فریق تسلیم کرے تو ان کی بات کچھ وقعت رکھتی ہے۔ وہ یہ وجہ ہے کہ مرزا قادیانی دوسرے مجتہدین کی طرح غلطی بھی کرتے تھے اور خطاء پر اڑے بھی رہتے تھے۔ جیسے ان کی پیش گوئی کی تفسیر و توضیح سے معلوم ہوتا ہے۔ پس اس بناء پر مرزا قادیانی نے جو مسلمانوں کی تکفیر یا ان سے رشتہ و ناطہ الگ کرنے یا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی باتیں کی ہیں۔ یہ ان کی اجتہادی غلطیاں ہیں۔ ورنہ حقیقت میں مرزا قادیانی کے انکار، بلکہ ان کی نکیر سے کوئی کافر نہیں ہوتا اورنماز سب مسلمانوں کی درست ہے اور رشتے ناطے سب جائز ہیں۔ اس کے خلاف مرزا قادیانی نے جو کچھ لکھا ہے۔ سب غلط اور ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے۔ اصل دین قرآن و حدیث ہے اور مرزا قادیانی کا درجہ دوسرے ملہمین یا اولیاء اﷲ کا ہے ان کو ماننا کوئی ضروری نہیں۔ نہ ان کے سامنے پر نجات منحصر ہے اور ہم نے بھی ایک مدت تک جو مرزا قادیانی کے ماننے کا ضروری قرار دیا، یہ ہماری اجتہادی غلطی تھی۔ جس کو ہم ترک کرچکے ہیں۔ پس اس صورت میں ہم لاہوری پارٹی کے دعویٰ کو حق بجانب خیال کریں گے اور گفتگو کے میدان میں انہی کا پلڑا بھاری ہوگا۔ اگرچہ حقیقت میں دونوں ایک ہی ہیں۔ بعض لاہوری اصحاب اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مرزا قادیانی کے انکار سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگر ان کو کافر کہنے سے کافر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کو اگر کوئی کافر کہے تو وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ پس جو مسلمان مرزا قادیانی کو کافرکہتے ہیں۔ اس حدیث کے رو سے ہم ان کو کافر کہتے ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کا نہ صحیح محمل سمجھا۔ نہ کفر کا مفہوم معلوم کیا۔ حدیث کا صحیح محمل محدثین نے بتایا ہے کہ کسی مسلمان کو مسلمان سمجھتا ہوا کافر کہے تو اس پر یہ فتویٰ چسپاں ہوتا ہے۔ مگر دوسرے مسلمان مرزا قادیانی کو ان کے ان دعاویٰ کی بناء پر کافر کہتے ہیں۔ جن میں بعض دعاویٰ کو آپ لوگ بھی کفر خیال کرتے ہیں۔ مرزا قادیانی کو مسلمان سمجھ کر غصہ کی حالت میں گالی گلوچ کی شکل میں کافر نہیں کہتے۔ امام بخاری نے اپنی کتاب میں یہ مسئلہ ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو کسی تاویل کی بناء پر کافر کہے تو کافر نہیں ہوتا۔ آگے اس کی سند میں