احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ہوتے۔ میں کہتا ہوں کہ نبی کے بیٹے کا نبی ہونا عجب نہیں ہے۔ پہلے بھی نبی کے بیٹے نبی ہوئے ہیں۔ اگر آنحضرتﷺ نے ایسا ارشاد فرمایا تو بجا ارشاد فرمایا۔ اگر حضرت ابراہیمؓ زندہ ہوتے تو نبی ہوتے۔ چونکہ اﷲ تعالیٰ کو تو یہ منظور تھاکہ آپ خاتم النّبیین کے اعلیٰ لقب سے ملقب ہوں۔ حضرت ابراہیمؓ نہ زندہ رہے نہ نبی ہوئے۔ اسی طرح کی ایک حدیث مجھ یاد آئی ہے۔ سنئے جو صحیح ترمذی کی ہے۔ ’’لوکان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب (ترمذی ج۲ ص۲۰۹)‘‘ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ تو کیا اس ارشاد سے آپ کے بعد نبی کا آنالازم ہو جاتا ہے۔ بلکہ اس سے حضرت ابراہیمؓ صاحبزادہ رسول اکرمﷺ اور حضرت عمرؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ اس درجہ کی فضیلت تھی اور ایسے ان کے مراتب ہیں کہ نبی ہونے کے لائق تھے۔ لیکن کاتب ازل نے نبوت کا خاتمہ تو آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات پر موقوف کر دیا تھا۔ اس لئے نہ حضرت ابراہیمؓ زندہ رہے اور نہ حضرت عمرؓ نبوت سے سرفراز ہوئے بلکہ مرزا قادیانی کے بیان کے خلاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ حضرت علیؓ کا قول مرزا قادیانی نے اپنی نبوت کے ثبوت میں حضرت علیؓ کا وہ قول بھی پیش فرمایا جس کو میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ لفظ خاتم کو بالفتح پڑھانے کی اس وقت ہدایت فرمائی جبکہ حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ پڑھ رہے تھے۔ اس سے وہ نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ حضرت علیؓکو خوف تھا کہ لفظ خاتم کے بالکسر پڑھنے سے لوگوں کو دھوکہ ہوگا اور نبوت کو مختتم سمجھیں گے۔ چونکہ ظلی نبوت ختم نہیں ہوئی تھی اس لئے حضرت علیؓبالفتح پڑھانے کی تاکید فرمائی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کو یہ بات معلوم تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قریب قیامت پھر آنے والے ہیں۔ اس لئے انہوں نے بالکسر پڑھانے سے منع فرمایا۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خاتم بمعنی مہر کے ہیں اور مہر آخر پر ہوا کرتی ہے اور حضرت علیؓ اس خیال سے کہ خاتم فصیح لفظ ہے اور بالفتح پڑھنے سے اور شدت کے ساتھ دوسرے نبی کے آنے کی تردید ہوتی ہے۔ بالفتح پڑھنے کا حکم دیا ہو۔ حضرت علیؓ کے ارشاد سے بھی مرزا قادیانی کے خیال کی تائید نہیں ہوتی۔ حضرت عائشہؓ کا قول اسی طرح حضرت عائشہؓ کا قول مرزا قادیانی نقل کرتے ہیں کہ اگر نبوت ہر قسم کی ختم ہو جاتی تو حضرت عائشہؓ یہ نہ فرماتیں کہ ’’قولواانہ خاتم الانبیاء ولاتقولوالا نبی بعدہ