احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سند پیش کرو۔ یہ کیسے سمجھا جائے اس مالک سے مراد امام دار ہجرہ مالک بن انس رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔ پس پھر کیا تھا، مرزائی مناظر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ادھر ادھر بغلیں جھانکنے لگا اور کوئی صحیح جواب نہ بن پڑا۔ دوم… یہ کہ بعض سلف سے منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے جانے سے قبل سلائے گئے تھے۔ چنانچہ لفظ ’’توفی‘‘کے یہ بھی ایک معنی ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وھو الذی یتوفاکم باللیل‘‘ اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جو رات کوتمہیں سلا دیتا ہے۔ اگر یہ فی الواقع امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ ہی کا قول ہے۔ تو اس سے مراد سلانا ہے ۔ موت کے معنی نوم کے بھی آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا‘‘مات کے معنی لغت میں نام کے بھی ہیں۔ ملاحظہ ہو قاموس وغیرہ۔ سوم… یہ کہ ’’وفی العتبیۃ قال مالک بینا الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلوٰۃ فتغشاھم غمامۃ فاذا نزل عیسیٰ ‘‘ (شرح اکمال لاکمال ج۱ص۲۶۶) یعنی عتبیہ میں ہے کہ امام مالکؒ نے فرمایا لوگ نماز کے لئے تکبیر کہہ رہے ہوں گے کہ اچانک ایک بادل چھا جائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے۔ عبارت ہذا سے صاف ثابت ومعلوم ہوگیا کہ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ حیات مسیح و نزول فی آخر الزمان کے قائل تھے۔ اسی واسطے مالکی مذہب کے دیگر علمائ، وفقہاء بھی حیات مسیح کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ زرقانی مالکی شرح مواہب لدنیہ میںرقمطراز ہیں:’’رفع عیسیٰ وھو حیّ علی الصحیح‘‘ یعنی صحیح بات یہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا ئے گئے اور اب تک زندہ ہیں۔ واضح باد… کہ کتاب عتبیہ امام مالک کی تصنیف نہیں ہے۔ بلکہ علامہ قرطبی امام عبدالعزیز اندلسی کی ہے جن کی وفات ۲۵۴ھ میں ہوئی۔ ملاحظہ ہو (کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ج۱ص۱۰۶،۱۰۷) مرزائی اعتراض… امام ابوحنیفہؒ امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ بھی وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ جواب اعتراض بالکل جھوٹ اور افتراء ہے۔ ’’ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین‘‘ لاؤ ثبوت اگر سچے ہو تو۔ دکھاؤ کس کتاب میں لکھا ہے کہ امام صاحبؒ وفات مسیح کے قائل تھے۔ اگر کسی نے جھوٹ بولنا اور مغالطہ دینا سیکھنا ہو تو مرزائیوں سے سیکھ لے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ تو