احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ہے۔ مگر پھر بعد میں پلٹی لگا گئے اور کہہ دیا کہ مسیح علیہ السلام تو فوت ہو گئے اور میں مسیح موعود ہوں۔ ’’فیا للعجب وضیعۃ العلم والادب۔‘‘ رفع کے حقیقی معنی لفظ رفع کے معنی کسی چیز کو صرف اوپر اٹھا لینے کے ہیں۔ باقی روحانی اور جسمانی قیودو قرائن حالیہ و مقالیہ سے سمجھے جاتے ہیں۔ صرف لفظ رفع سے ہر جگہ اس امر کا تصفیہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا مرزائیوں کے جملہ شبہات و تمثیلات محض لایعنی و معطل ہیں۔ محل استعمال رفع سے معنی کی تعین اس نزاع کا فیصلہ لفظ رفع کے مدخول علیہ سے ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر لفظ رفع کا مدخول علیہ کوئی روحانی چیز ہے تو رفع بھی روحانی ہوگا۔ اگر کوئی امرجسمانی ہو تو رفع بھی جسمانی ہوگا۔ علمی چیز ہے تو رفع بھی علمی ہوگا۔ اگر خیالی ہے تو رفع بھی خیالی ہوگا اور اگر رفع کا مدخول علیہ جسم اور روح ہر دو اجتماعی صورت میں، میں تو رفع بھی روح اور جسم ہر دو کا اجتماع ماننا لازم ہوگا۔ جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق روح اور جسم ہر دو کی اجتماعی صورت میں واقع ہوا ہے۔اس تقریر کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام آیات قرآنی و احادیث نبوی کو پڑھ جائیے۔ کسی ایک مقام پر بھی اس کے خلاف نہ مل سکے گا۔ انشاء اﷲ! رفع کی کیفیت اس کے مدخول علیہ کے بدلنے سے بدلتی رہتی ہے۔یاد رکھو! ہر چیز کا رفع اس کی اپنی ذات ووجود کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جو جیسی چیز ہوگی ویسے ہی اس کا رفع بھی ہوگا۔ ہمیں نہ روحانی رفع سے انکار ہے نہ جسمانی سے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بکثرت امثلہ موجود ہیں۔ مگر آپ لوگ ہر جگہ روحانی ہی رفع مراد لیتے ہیں۔ یہ آپ کی کم علمی یا ہٹ دھرمی کا ثبوت ہے۔ دعا بین السجدتین میں جو رفع کا لفظ ہے۔ وہ بھی ہمارے مدعا کے خلاف نہیں۔ کیونکہ وہ منقولی رنگ میں پڑھی جاتی ہے۔ نیز اس سے یہ مقصود ہے کہ یا اﷲ تو ہم کو جنت عالیہ میں سرر مرفوعہ پر مرفوع فرما۔ نبی علیہ السلام کے اس کلام کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ یا اﷲ جس طرح تیری توفیق سے اب سجدہ سے میں نے سر اٹھایا ہے۔ اسی طرح قیامت کے دن جب میں سجدہ میں سر رکھوں گا تواپنا حکم ارفع راسک جلد فرمائیو۔ مرزائی عذر… رسمی عقیدہ؟ مرزاقادیانی نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں محض رسمی طور پر عقیدہ حیات مسیح کا لکھ دیا تھا۔ کوئی