احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
نکالنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائی۔ اگر ان بزرگوں کے اقوال سے مرزا قادیانی کی تائید ہوتی بھی، تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ان بزرگوں کے اقوال حدیث کا درجہ نہیں رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ قابل تسلیم نہیں ہیں۔ ان چار، پانچ بزرگوں کے اقوال کے خلاف ہزارہا بزرگوں کے اقوال ہیں تو وہی اقوال تسلیم کرنے کے قابل سمجھے جائیں گے جدھر غلبہ ہو۔ صدہا اقوال کے مقابلہ میں چار، پانچ کی کیا وقعت ہو سکتی ہے؟بہت تعجب کی بات ہے کہ چار پانچ بزرگوں کے اقوال کو تو بطور سند کے پیش کرتے ہیں اور صدہا بزرگوں کے اقوا ل کو جو مرزا قادیانی کے دعویٰ کے خلاف ہیں، نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی عقل کی بات ہے؟ غلبہ آراء کو دیکھناچاہئے۔ مثنوی مولانارومؒ سے مرزا قادیانی کا استمساک اس کے بعد مرزا قادیانی نے حضرت مولانا روم کی مثنوی کے چند شعر استدلالً تحریر فرمائے ہیں۔ وھوہذا فکرکن وراہ نیکو خدمتے تانبوت یابی اندرامتے چون ازونور نبی آیدپدید اونبی وقت خویش است اے مرید مگسل از پیغمبر ایام خویش تکیہ کم کن برفن و برکام خویش اے مراچون مصطفی من چوں عمر از برائے خدشت بندم کر میرے عالم دوست خود ہی غور فرمائیں کہ مثنوی کے یہ اشعار مرزا قادیانی کے دعویٰ کی کچھ بھی تائید کرتے ہیں؟ مولانا روم کے ان اشعار میں مبالغہ توصیفی ہے۔ شاعروں کے کلام ایسے مبالغوں سے بھرے پڑے ہیں۔ علم عروض میں تشبہیات و استعارات و مبالغات سے کام لینا ایک فن شاعری کا سمجھا گیا ہے۔ مثلاً لوح سیمین سے محبوب کی پیشانی مراد لی جاتی ہے۔ سنبل،ریحان، تازیانہ، زنجیر سے زلف کو تشبیہ دی جاتی ہے اور قامت کو سرو سے تشبیہات اور استعارات فن شاعری میں بہت رائج ہیں۔ مشبہ کو متروک کر کے مشبہ بہ کو ذکر کرتے ہیں اور اس سے مشبہ مراد لیتے ہیں۔ مثلاً چاند