احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اعتراض پندرھواں مرزائی غیر احمدیو!قرآن مجید میں آیت’’بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۷)‘‘ جو نازل ہوئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ابن مریم علیہ السلام آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ ترجمہ تو اس آیت کا یہ ہے کہ میں نے ابن مریم کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ خداوند عالم کی ذات کہاں پر ہے۔ اس کی ایک طرف کوئی مقرر نہیں۔ وہ تو ہر طرف موجود ہے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :’’فاینما تولوافثم وجہ اﷲ (البقرۃ:۱۱۵)‘‘ یعنی پس سوائے اﷲ کے نہیں پس جدھر کو منہ کرو تم ادھر ہی منہ اﷲ کا ہے۔‘‘ لہٰذا اس آیت مبارکہ سے معلوم ہواکہ خدا وندعالم کی ذات بابرکات تو ہر طرف موجود ہے۔ اب فرمائیے کہ ابن مریم علیہ السلام کس طرف اٹھائے گئے؟ مشرق یا مغرب، جنوب یا شمال؟ دوسری آیت ملاحظہ فرمائیے:’’ونحن اقرب الیہ من حبل الورید (ق:۱۶)‘‘ ’’اور ہم بہت قریب تر ہیں طرف اس کی رگ جاں سے۔‘‘ اب اس آیت سے بھی خدا وند کریم کی کوئی طرف مقررہ معلوم نہیں ہوتی۔ تو کیسے سمجھ لیا جائے کہ وہ آسمان پر ہی اٹھائے گئے ہوںَ تیسری آیت تو بالکل اچھی طرح سے واضح کرتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات سے کوئی طرف خالی نہیں۔ حتیٰ کہ نہ آسمان اور نہ زمین۔ وہ تو ہر جگہ موجود ہے۔ابن مریم کو کس طرف اٹھایا۔ مثلاً ’’وھو اﷲ فی السموات والارض (الانعام:۳)‘‘ ’’وہی ہے اﷲ بیچ آسمانوں اور زمین کے ۔‘‘ عدل و ایمان سے فیصلہ کریں کہ اگر ’’الیہ ‘‘سے ابن مریم آسمان پرجاتے ہیں۔ کیا زمین کی طرف نہیں جا سکتے ہیں؟ فیصلہ وہی ہو جو عام مخلوق کے ساتھ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کیا ہو۔ بس ہمیں معلوم ہے کہ جیسے ہر جان فوت ہو کر خداوند کریم کی طرف چلی جاتی ہے۔ لہٰذا ابن مریم علیہ السلام ان سب کی طرح فوت ہو کرخدا وندعالم کی طرف چلے گئے۔ جیسے کسی آدمی کی موت سن کر فوراً پڑھ لیا جاتا ہے:’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ یعنی ہم تحقیق واسطے اﷲ کے ہیں اور تحقیق ہم اس کی طرف جانے والے ہیں۔ کیا یہ مطلب ہو گا کہ ہم آسمانوں پر چڑھنے والے ہیں؟ نہیں۔ بلکہ فوت ہونے والے ہیں۔ لہٰذا آج تک کوئی بشر زندہ خدا کی طرف نہیں گیا۔ ہر کوئی فوت ہو کر اﷲ کی طرف جاتا ہے۔ اس لئے ’’بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۷)‘‘ سے ہمارا ایمان بالکل مکمل ہے کہ ابن مریم فوت ہوکر خدا وند عالم کی طرف چلے گئے۔