احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ص۳۰۰) میںصاف فیصلہ موجود ہے ’’ان معنے التوفی اخذ الشی وافیاولما علم اﷲ تعالیٰ ان من الناس من یخطرببالہ ان الذے رفعہ اﷲ الیہ ھوروحہ دون جسدہ کما زعمت النصاریٰ ان المسیح رفع لا ھوتہ یعنی روحہ وبقی فی الارض نا سوتہ یعنی جسدہ فرد اﷲ علیہم بقولہ انی متوفیک ورافعک الیّ فاخبر اﷲ تعالیٰ انہ رفع بتمامہ الی السماء بروحہ وجسدہ جمیعا‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ بعض لوگوں کے دل میں شیطان یہ وسوسہ ڈالے گا کہ اﷲ نے عیسیٰ علیہ السلام کی صرف روح اٹھائی ہے،جسم نہیں اٹھایا۔ جیسا کہ نصاریٰ کا دعویٰ ہے کہ مسیح کی روح اٹھائی گئی اور جسم زمین پر باقی رہ گیا۔ پس اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے نصاریٰ کا (او ر ان کے مقلدین مرزائیہ کا) رد کردیا اور بتا دیا کہ عیسیٰ علیہ السلام بتمامہ اٹھا لئے گئے۔ یعنی روح اور جسم دونوں کے ساتھ نہ صرف روح کے ساتھ۔ اسی طرح علامہ ابومحمد محی السنتہ امام بغوی کی تفسیر معالم التنزیل میں تحت آیت ہذا مرقوم ہے:’’قال الحسن و الکلبی وابن جریج انی قابضک ورافعک من الدنیا انی من غیر موت یدل علیہ قولہ تعالیٰ فلما توفیتنی ای قبضتنی الی السماء وانا حی لان قومہ انما تنصر وابعد رفعہ لا بعد موتہ‘‘ یعنی اس آیت کا معنی متقدمین سلف صالحین سے یہ منقول ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ! میں تجھ کو دنیا سے اپنی طرف بغیر موت کے اٹھانے والاہوں۔ پس ان تصریحات کے باوجود معترض کا یہ کہنا کہ جسم کے بغیر صرف روح کو اٹھایا۔ صریح عناد، ضد نفسانیت اور حق کا مقابلہ کرنا ہے۔ اﷲ پناہ دے۔آمین۔ مرزائی اعتراض… سجدہ میں وارفعنی؟ حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ دو سجدوں کے درمیان دعا میں ’’وارفعنی‘‘ کہتے تھے کہ خدایامیرا رفع کر۔ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ متواضع بندہ کا رفع ہو جاتا ہے۔ یعنی بلند مرتبہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اﷲ نے عیسیٰ علیہ السلام کا مرتبہ بلند کر دیا بجنسہ آسمان پر نہیں اٹھایا۔ جواب اعتراض چونکہ رفع سے پہلے یہاں توفی کا ذکر ہے اور توفی کے معنی حسب لغت و تفاسیر و اقرار مرزا ’’پورالینے‘‘ کے ہیں۔ اس لئے رفع کا معنی بالفرض بلندی درجات بھی لئے جائیں تو ہمارے مدعا کے خلاف نہیں۔ پس اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مسیح علیہ السلام بمع جسم و روح آسما ن پر پورے پورے اٹھا لئے گئے۔ جیسا کہ متوفیک کا منشاء و مقتضا ہے۔ جس سے