احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
’’ولاتقولوالمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون (البقرۃ:۱۵۴)‘‘یعنی جو اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں قتل کئے جائیں ان کو مردے مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ اگر رفع سے مراد رفع درجات سمجھا جائے تو پھر یہودیوں کی تائید ہوئی۔ جیسا کہ انہوں نے کہاکہ ہم نے قتل کرڈالا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور اﷲ تعالیٰ نے جواب دیا کہ میں نے اس کے درجے بلند کر دیئے۔ درجہ تو بلند تب ہی ہو سکتا ہے کہ ابن مریم کو ان لوگوں نے قتل کیا ہوتا۔ مگر قرآن کریم اس بات کی تردید کرتا ہے کہ ’’وماقتلوہ وما صلبوہ‘‘ ان عقلی اور نقلی دلائل سے ظاہر ہوا کہ رفع درجات نہیں بلکہ رفع سے مراد رفع جسمانی ہے۔ جیسا کہ عام تفاسیر معتبرہ اس بات کی بشارت دے رہی ہیں۔ حیات مسیح علیہ السلام کی ساتویں دلیل ’’وان من اھل الکتاب الالیؤمننّ بہ قبل موتہ (النسائ:۱۵۹)‘‘ {اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا ساتھ اس کے (یعنی ساتھ حضرت عیسیٰ کے، پہلے موت اس کی کے)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے قبل۔} اس آیت میں ’’لیؤمنن ‘‘نون تاکید ثقیلہ مع لام قسمیہ موجود ہے۔ کتب نحو میں بالتصریح لکھا ہے کہ نون تاکیدی مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے۔ ماضی اور حال کے لئے نون تاکید ثقیلہ و خفیفہ نہیں آتا۔ اس میں کسی نحوی کو خلاف نہیں اور نہ کوئی آیت اور حدیث اور کلام عرب اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ ابن ہشام راقم ہیں:’’واما المضارع فان کان حالالم یوکد بھما وان کان مستقبلا اکدبھما وجوبا نحو تااﷲ لاکیدن اصنامکم (مغنی ص۲۲ ج۲)‘‘یعنی اگر مضارع حال کے معنی میں ہو تو ان ہر دو (ثقیلہ وخفیفہ) سے تاکید نہیں کی جاتی۔ اگر مسقبل کے معنی میں ہو تو اس کی تاکید ان میں سے کسی کے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔ جیسا کہ آیت ’’لا کیدن اصنامکم‘‘ میں موجود ہے اور اسی طرح (شرح جامی ص۳۷۹)پربھی مذکور ہے۔ ’’وانما اختصت ہذہ النون بھذہ المذکورات الدالۃ علی الطلب دون الماضی والحال لانہ لایؤکدالا مایکون مطلوبا لان وضعہ لتاکیدطلب حصول شی والمطلوب لایکون ماضیا ولاحالا‘‘ اس آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ آئندہ زمانہ میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میںسب اہل کتاب یہود ونصاریٰ جو اس وقت موجود ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کے