احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ہیضہ،طاعون یا آفات سماوی حسب اقتضائے قانون طبعی جس کو شرعی اصطلاح میں عادت اﷲ کہتے ہیں۔ دنیا میں آتی رہتی ہیں اور اسی قانون قدرت کے موافق ان کا مداوا بھی ہوتا رہتا ہے۔ دوم… اگر ان آفات کا آنا ہماری بداعمالیوں ہی کی سزا ہے تو بھی اس کا علاج وہی معقول معلوم ہوتا ہے جو غریب انجمن حمایت اسلام لاہور نے اور کل اہل اسلام نے تجویز کیا ہے کہ ہم نہایت عجز و شرمساری کے ساتھ اس رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور سچے دل سے توبہ کریں اورمعافی مانگیں۔ نہ یہ کہ توحید ہی سے انکار کریں، رسالت کے منکر ہو جائیں اوربزرگان دین کی تحقیر اور توہین کریںجو یہ رسالہ بتاتا ہے۔ **صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں موحد ہوں۔ یعنی سیدھا سادہ مسلمان۔ میرے معتقدات میں شرک فی الوحدت او ر شرک فی النبوت یکساں ہیں۔ یعنی جس طرح میں اﷲ کی ذات میں اس کی صفات میں اور اس کی عبادات میں کسی کو شریک کرنا کفر سمجھتا ہوں۔ اسی طرح اپنے پیارے نبیﷺ کے برابر کسی کو سمجھناکفر جانتا ہوں اورکلمہ توحید کے منافی سمجھتا ہوں۔ بھائی جان! برا نہ ماننا، فرط اعتقاد انسان کو اندھا اور بہرہ کردیتا ہے۔ آپ نے تو غالباً مرزا قادیانی کی کل تصانیف پڑھی ہوں گی۔ میں نے اس سے پہلے مرزا قادیانی کی چند تصانیف پڑھی ہیں۔ ان میںجو کچھ مجھ کو خلاف اسلام یا خلاف معقول معلوم ہوا ہے، اس کا کیا ذکر کرنا۔ اسی رسالہ سے جو آپ نے عنایت فرمایا ہے، مجھے مرزا کا شرک فی الوحدت اور شرک فی النبوت بلکہ اشتراک فی النبوت میں مبتلا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پس میرے خیال میں جو شخص بموجب معتقدات اسلام خود کفر اور شرک کے درجہ تک پہنچ چکا ہو۔ اس پر ایمان لانا طاعون سے بچنے کا ذریعہ ہونے کے بجائے سیدھا دوزخ میں جانے کاباعث ہے اور اسی واسطے میں نے عرض کیا ہے کہ جو علاج اس رسالہ میں بتلایا گیا ہے۔ وہ اس قسم کا ہے کہ دھوپ سے بچنے کے واسطے تنور میں پناہ لی جائے۔ مرزا قادیانی کا شرک فی الوحدت میں مبتلا ہونا دیکھئے،مرزا قادیانی کے الہام کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’انت منی بمنزلۃ اولادی، انت منی وانا منک ‘‘(دافع البلاء ص۶،۷ خزائن ج۱۸ص۲۲۷)اس سے اگر مرزا قادیانی کی مراد یہ ہے کہ ہر ایک چیز خدا کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کی ہے:’’کماقال اﷲ تعالیٰ فی کتابہ وﷲ ما فی السموات وما فی الارض (نسا:۱۳۱)‘‘{اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین پر ہے، سب اﷲ کا ہے۔} یا یہ کہ