احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
قادیانی اور یہودی آج جبکہ تمام ممالک اسلامیہ کی فطرت آزاد حلقہ ہائے دام کو توڑ کر پھر سے فضائے حیات پر چھا جانے والی ہے۔ ایران ہو یا مصر، فلسطین ہو یا پاکستان، سبھی آزادی کی دھن میں سرشار نظر آتے ہیں اور ایک ہی طرح کے مردانہ طرز عمل پرگامزن ہیں۔ سامرین مغرب عربستان میں صیہونیت اور پاکستان میں مرزائیت کی فتنہ پردازیوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اہل نظر حضرات ان آستین کے سانپوں سے محتاط رہیں۔ مرزائیت کی طرح صیہونیت بھی اپنے قیام و بقاء میں افرنگ کی محتاج ہے۔ صیہونیت امریکی سامراج کا مرغ دست پروردہ ہے تو مرزائیت برطانوی استعمار کا خود کاشتہ پودا، مقصد دونوں کا اسلام دشمنی اور داخلی ریشہ دوانیاں ہیں۔ آج جبکہ بقائے پاکستان کے لئے ہر پاکستانی کا سربکف ہوجانا لازم ہے اورجبکہ خیبر سے کراچی تک نعرہ جہاد گونج رہا ہے اور کفر مغرور جونا گڑھ اور کشمیر کے بعد خود پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے۔ منکرین جہاد اور پرستاران فرنگ کا پاکستان میں وجود نہ صرف وجود بلکہ غیر معمولی اثر و رسوخ بہت ہی تشویشناک مسئلہ ہے۔ یہ ایک داخلی امر ہے۔ جو ہمارے ملی قویٰ کو مفلوج اور ماؤف کرتا چلا جارہا ہے۔ لہٰذا اس کا انسداد لازم ہے۔ اگر مرزائی شریف اور وفاداربن کر رہیں تو بہرحال ان کے جان و مال کا تحفظ ہونا چاہئے۔ لیکن ان کی ذہنی پرداخت اور اعتقادی ساخت کے پیش نظر ان کا وفادار پاکستانی بن کر رہنا بظاہر امر محال ہے۔ ان کے مذہبی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود قادیانی کی وہ رؤیا ہمارے سامنے ہیں۔ جس میں انہوںنے گاندھی صاحب سے اپنے اختلاط اور مکالمہ کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں اختلاط کی صورت سے مجھے بحث نہیں۔ اس مسئلہ پر تو ماہرین نفسیات ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ کیونکہ ان باپ اور بیٹے کی خوابوں میں قابل اعتراض اختلاط کے جلوے نظر آتے ہیں۔ مجھے تو صرف مکالمہ کا ملخص آپ کے پیش کرنا ہے۔ جس کا ٹیپ کا بندیہ ہے کہ مرزا قادیانی گاندھی صاحب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ:’’تقسیم ملک فی الوقت ناگزیر ہے۔ گو ہمیں ناگوار بھی ہے۔ تاہم ہمار ی یہ انتہائی کوشش ہوگی کہ دونوں ملک پھر ایک ہو جائیں۔ یعنی بھارت اکھنڈ ہو جائے۔‘‘ اب آپ ہی فرمائیے کہ امین الملک جے سنگھ بہادر کے صاحبزادے کے خواب کے مضمون اورٹنڈن یاشیا، پرشاد و مکرجی کے بیانات میں کیا فرق ہے؟ صرف یہی کہ دونوں یہ بیان