احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
اترکھم حتیٰ یقتلوک بل انا رافعک الی سمائی ومقربک ہذاتاویل حسن (تفسیر کبیر ج۴ جز۸ ص۷۱)‘‘ یعنی توفی کا معنی ہے کسی چیز کو پکڑنے کے اور پورا کرنے کے’’متوفیک ورافعک الیّ‘‘ یہ دونوں کلمے واسطے مستقبل کے ہیں اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اور قبض کرنے والا ہوں تجھ کو طرف آسمان کے پھر فوت کروں گا دوبارہ نازل کرنے کے بعد اور کہا حسنؓ و الکلبیؒ اور ابن جریحؒ نے متوفی معنی قبض کرنے والا ہوں تجھ کو اوراٹھانے والا ہوں تجھ کو اس دنیا سے طرف اپنی بغیر موت کے۔ یہ عبارت بیچ تفسیر کبیر کے موجود ہے۔ تحقیق قبض کرنے والا ہوں تجھ کو اور باقی تیری عمر جو باقی ہے، اس کوپورا کروں گا اور تیرے دشمن کو قتل کراؤں گا اور وہ ارادہ رکھتے ہیں تیرے قتل کا۔ بلکہ اٹھاؤں گا تجھ کو طرف آسمان کے اور رکھوں گا ساتھ ملائکہ کے بے خوف۔ مرزائیو! کون مفسر ہے جو تمہاری تصدیق کرتا ہے۔ کوئی نہیں، تمہیں شرم کرنی چاہئے۔ متوفیک کا ترجمہ موت کرنا قرآن مجید، احادیث شریف معتبر تفاسیر کے کھلم کھلا خلاف پایاگیا۔ اعتراض نمبر۳ اگر اﷲ تعالیٰ نے ابن مریم کو آسمان پر اٹھانا تھا تو ’’متوفیک‘‘ کیوں پہلے بیان کیا گیا۔ پہلے ’’رافعک‘‘ کیوں نہیں آیا۔ بقول تمہارے اگر زندہ ہوتے تو آیت کی ترتیب غلط نہ ہوتی۔ جیسے ’’متوفیک ورافعک‘‘ موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واقعی ابن مریم علیہ السلام اس دنیا سے وفات پاچکے ہیں۔ الجواب نمبر۱ ’’الذی خلق الموت والحیٰوۃ لیبلوکم ایّکم احسن عملا (الملک:۲)‘‘ {وہی ہے اﷲ تبارک وتعالیٰ جس نے پیدا کیا موت کو اور زندگی کو تا کہ آزماوے تم کو تاکہ تم میں سے کون سا بہتر عمل میں۔} مرزائیو! اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ اے انسان میں نے موت زندگی تمہاری اس لئے بنائی ہے کہ دیکھوں تم میں سے پرہیز گاری کو کون اختیار کرتا ہے۔ سوال… کیا پہلے موت پیدا ہوتی ہے یا زندگی؟ معاذ اﷲ۔ قرآن مجید کی یہ عبارت تمہارے نزدیک غلط ہوگی۔ کیونکہ پہلے زندگی بیان ہوتی بعد موت۔ مگر ایسا نہیں حالانکہ پہلے موت ہے۔ اب تمہارا کیا فتویٰ ہے؟ اگر بالفرض آیت متوفی کے