احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
الزکوٰۃ وارکعو مع الراکعین‘‘{نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرو۔} اس مقام پر بھی اگر واؤ ترتیب کے لئے سمجھی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب بھی زکوٰۃ دینی ہو تو پہلے نماز پڑھی جائے اورزکوٰۃ دینے کے لئے رکوع کیا جائے۔ حالانکہ منشائے الٰہی ہرگز یہ نہیںہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ان کاموںکو اپنے اپنے موقع پرادا کرتے رہو۔ ترتیب کا کوئی لحاظ نہیں۔ چوتھی مثال… ’’یمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی من الراکعین (آل عمران)‘‘ {اے مریم! مطیع فرماں بردار ہوجا اپنے رب کی اور سجدہ کر اور رکوع کر۔} یہاں رکوع سے پہلے سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ کیا نماز کا یہی طریقہ ہے؟بات اصل یہ ہے کہ واؤ ترتیب کے واسطے نہیں ہے۔ اسی واسطے تحت آیت ہذا تفسیر فتح البیان میں مرقوم ہے:’’کون الواولمجرد الجمع بلا ترتیب‘‘ واؤمجرد جمع کے ہے ترتیب مراد نہیں ہے۔ اسی طرح صاوی حاشیہ جلالین میں مرقوم ہے:’’والواولا تقضی ترتیباان کانت صلوتھم کصلاتنا من تقدیم الرکوع علی السجود‘‘ الغرض اس قسم کی بہت سے مثالیں کتاب و سنت میںمل سکتی ہیں۔ مرزا قادیانی بھی اس کے قائل ہیں۔ چنانچہ (تریاق القلوب ص خزائن ج۱۵ص۳۵۲)میں لکھتے ہیں کہ :’’ضروری نہیں کہ صرف واؤ کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو۔‘‘حاصل یہ کہ حضرت ابن عباسؓ حیات مسیح کے قائل تھے۔ ان پر وفات کا اتہام لگانے والا مفتری و کذاب ہے۔ مرزائی اعتراض… خطبہ حسنؓ (طبقات کبریٰ ج۳ص۲۱)میںہے کہ امام حسنؓ نے وفات علیؓ کے خطبہ میں کہا:’’لقد قبض اللیلۃ عرج فیہ بروح عیسیٰ بن مریم‘‘ ملاحظہ ہو (مرزائی پاکٹ بک ص۲۳۳) جواب اعتراض اوّل تو طبقات کبریٰ کوئی مستند و معتبرکتاب نہیں کہ محض اس کا نقل کرنا ہی دلیل صداقت ہو۔ مرزائیوں پر لازم ہے کہ اس کی سند پیش کریں تاکہ معلوم ہو کہ اس کے راوی سچے ہیں یا مرزائیوں کی طرح مفتری۔ ورنہ ایسی بے سند و بے ثبوت بات کوئی عاقل ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دوم… چونکہ خود اسی کتاب کا مصنف حیات مسیح کا قائل ہے۔ جیسا کہ (ج۱ص۳۶) میں حضرت ابن عباسؓ کا قول بابت حیات مسیح نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:’’وانہ رفع بجسدہ وانہ حی الان وسیرجع الی الدنیا فیکون فیھا ملکا ثم یموت کما یموت الناس‘‘ یعنی تحقیق مسیح علیہ السلام مع جسم کے آسمان پر اٹھائے گئے اور بلا ریب وہ اس وقت زندہ موجود