احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ایک اورمقام پر ارشاد ہوا ہے۲؎ ’’والذین اتبعوا ھم باحسان رضی اﷲ عنہم ورضواعنہ (توبہ:۱۰۰)‘‘{وہ لوگ جنہوں نے نیکی سے اطاعت کی اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے۔} پس خیال فرمائیں کہ جن کی نسبت اﷲ تعالیٰ رضی اﷲ عنہم فرمائے ان کی نسبت آپ کا رضی اﷲ عنہ نہ لکھنا اﷲ کے ارشاد کے خلاف ہے یا نہیں؟ خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارے پاس بعد الانبیاء انہی کا رتبہ ہے۔ ان کے ناموں کے ساتھ حضرت، رضی اﷲ عنہ نہ لکھنا بہت تعجب اور افسوس کے قابل ہے۔ نمبر(۴) کا جواب دینا نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس کا جواب بھی نمبر۱،۲،۳ سے مل جائے گا۔ آنحضرتﷺ بیشک خاتم النّبیین تھے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں نہ ظلی نہ متبع اب میں قرآن شریف کی اس آیت کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس سے قریب قریب جملہ مسلمان واقف ہیں۔ یعنی ’’ماکان محمد اباء احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ و خاتم النّبیین (احزاب:۴۰)‘‘ سیاق عبارت صاف بتلارہی ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد پھر کوئی نبی نہ ہوگا۔ خاتم کا لفظ قرآن شریف میں بالفتح ہے۔ فصحائے عجم لفظ خاتم کو بالکسر نہیں استعمال کرتے ہیں بلکہ بالفتح استعمال کرتے ہیں۔ لغاوت میں لفظ خاتم بالفتح و بکسر دونوں صحیح بتلائے گئے ہیں اور محققین کہتے ہیں کہ خاتم بروزن فاعل جو وزن اسم آلہ کا ہے بمعنی ’’مایختم بہ عالم بفتح لام‘‘ بمعنی ’’مایختم بہ عالم بفتح لام ‘‘ بمعنی’’مایعلم بہ‘‘ اور اگر زیر سے پڑھیں تو اسم فاعل کے معنی یعنی ختم کرنے والے کے ہیں۔ قرآن مجید میں بالفتح ہے او ر بالفتح پڑھنے کی تاکید حضرت علیؓ نے بھی فرمائی ہے۔ جیسا کہ ابی عبدالرحمن بن سلمیٰ سے مروی ہے کہ ’’کنت اقری الحسن والحسین فمرنی علی بن ابی طالب وانا اقرئھما فقال لی اقرھما خاتم النّبیین بفتح التائ‘‘ بیشک لفظ خاتم کے معنی مہر کے یا انگشتری کے ہیں۔ مگر تمامی علمائے عرب و عجم و مصر و شام و روم و افریقہ نے اس موقع پر بلحاظ سیاق عبارت مطلب ختم کرنے والے کا لیا ہے اور ان ممالک کے علماء جن کی مادری زبان عربی تھی اور اپنی زبان کے حاکم مانے جاتے تھے۔ ۲؎ اس آیت کے پہلے کی عبارت قرآن یہ ہے ’’والسبقون الاولون من المھٰجرین والانصار‘‘