احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
آیت کا کیا معنی ہوگا کہ کتاب قرآن کریم کے فوت ہو جانے کے بعد کس چیز پر ایمان لاؤ گے۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت ظاہر کرتی ہے کہ ’’من بعدی‘‘ کا معنی ہرگز موت نہیں۔ اگر معنی موت لیا جائے تو معاذ اﷲ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے کلام پاک کو بھی مردہ سمجھا جائے گا۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ کے کلام پاک کو ہرگز فنا نہیں۔ اگر بالفرض من بعدی سے موت مراد ہو تو خدا کی قسم اﷲ تعالیٰ کبھی بھی اپنے کلام پاک کے لئے اس لفظ کو استعمال نہ فرماتا۔ تومعلوم ہوا کہ ’’من بعدی‘‘ سے موت مراد لینا قرآن کریم کے خلاف ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ثابت ہوئے۔ وفات مسیح علیہ السلام پر بارھویں دلیل کی بیخ کن تردید اعتراض مولانا احمدعلی قادیانی ’’ومنکم من یتوفی ومنکم من یرد الیٰ ارذل العمر لکیلا یعلم من بعدہ علم شیئا (الحج:۵)‘‘ یعنی سنت اﷲ دو ہی طرح سے تم پر جاری ہے۔ بعض تم میں سے عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اور بعض عمر طبعی کو پہنچتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ’’ارذل العمر‘‘کی طرف رد کئے جاتے ہیں اور نوبت اس حد تک پہنچتی ہے کہ علم ہونے کے بعد وہ بچے کی طرح نادان محض ہو جاتے ہیں۔ ’’عن علی انہ خمس وسبعون سنۃ ففیہ ضعف القویٰ وسوء الحفظ وقلۃ العلم‘‘ (جامع البیان ص۲۲۰)حضرت علی ؐفرماتے ہیںکہ ارذل العمر ۷۵ سال کی عمر ہے جس میں قویٰ کی کمزوری حافظہ کی خرابی اورعلم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ علامہ بیضاوی لکھتے ہیں ’’قتل ھو خمس وتسعون سنۃ وقیل خمس وسبعون‘‘(حوالہ بیضاوی ص۴۴۷) یعنی بعض ائمہ کے نزدیک ’’ارذل العمر‘‘ ۹۵ برس اور بعض کے نزدیک ۷۵ سال کی عمر ہے۔ یہ آیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر بصراحت دلالت کرتی ہیں۔‘‘ (نصرۃ الحق ص۱۱۹،۱۲۰ مصنفہ احمد علی شاہ قادیانی) جواب اوّل ’’ولقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومہ فلبث فیھم الف سنۃ الا خمسین عاما (العنکبوت:۱۴)‘‘{اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو طرف قوم اس کی کے، پس ٹھہرا بیچ ان کے عرصہ نوسو پچاس سال۔} مولانا احمد علی صاحب!اب دریافت طلب یہ بات ہے کہ آپ کے پیش کردہ حوالہ جات سے جو ہمیں ارذل العمر۷۵ یا ۹۵ سال معلوم ہوئی ہے کہ ارذل العمر میں ہر انسان کا علم و