احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اور اقتباس نمبر۱۰ کے پیش نظر مرزا قادیانی کی پٹاری سے وہ تمام الہامات خارج کر دیں جو ان کو ایسی زبان میں ہوئے ہیں۔ جس کو وہ سمجھ نہیں سکتے۔ جیسے’’ھوشعنا نعسا‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ص۶۶۴)’’پریشن عمر براطوس‘‘ (البشریٰ ج۱ص۵۱، تذکرہ طبع سوم ص۱۱۵)’’بعد۔۱۱۔ انشاء اﷲ۔‘‘ (البشریٰ ج۲ص۶۵،۶۶،تذکرہ طبع سوم ص۴۰۱)وغیرہ۔ اب فرمائیے کہ اس غیر معقول اور بیہودہ امر کا ارتکاب کس نے کیاہے؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ مرزا قادیانی کے ملہم(الہام کرنے والے) نے ارتکاب کیا اور غیر معقول اور بیہودہ امر کا ارتکاب تو خدائے قدوس نہیں کر سکتا۔ پس اس سے معلوم ہواکہ یہ الہامات مرزا صاحب کو خدا کی طرف سے نہیں ہوئے بلکہ شیطان نے القاء کئے تھے۔ اب رہا یہ امر کہ شیطانی الہام کس کو ہوتے ہیں؟ اس کا جواب مرزا قادیانی نے یہ دیا ہے: ’’رحمانی الہام اور وحی کے لئے اول شرط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اس میں نہ رہے۔ کیونکہ جہاں مردار ہے ضرور وہاں کتے بھی جمع ہو جائیں… جو شیطان کے ہیں اور شیطان کی عادتیں اپنے اندر رکھتے ہیں۔ انہیں کی طرف شیطان دوڑتا ہے۔ کیونکہ وہ شیطان کے شکار ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۳۹، خزائن ج۲۲ص۱۴۲) مرزاقادیانی کے الہامات کی پٹاری خالی ہو گئی اے مرزا قادیانی کے عقیدت مندو! مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں مرزا قادیانی کی پٹاری میں نظر کرو اوربتلاؤ کہ اس کے اندر کوئی ایسی پیش گوئی رہ گئی ہے۔ جس پرتنقید کرنے کی ہم کو تکلیف برداشت کرنی پڑے۔ امید ہے کہ ہر ایک عقلمند یہی جواب دے گا کہ کوئی نہیں۔ پھر اگر آپ گول مول الہامات کا نام پیش گوئی رکھیں گے یا ہمارے سامنے وہ پیش گوئیاں اور الہامات پیش کریں گے۔ جن میں زلزلے، قحط، لڑائی، مری وغیرہ کا ذکر ہوگا۔ تو ہم بھی مجبور ہوجائیں گے کہ جو فتویٰ مرزا قادیانی نے حضرت مسیح علیہ السلام پرلگایا ہے کہ ’’اس نادان اسرائیلی نے ان معمولی باتوں کا نام پیش گوئی کیوں رکھا۔‘‘ یہی فتویٰ مرزا قادیانی پرلگائیں گے کہ ’’اس نادان… نے ان معمولی باتوں کانام پیش گوئی کیوں رکھا؟‘‘ ناظرین!یہ حقیقت ثابتہ ہے کہ کسی آئندہ پیش آنے والے واقعہ کی خبر دینا پیش گوئی کہلاتا ہے۔ بشرطیکہ الفاظ پیش گوئی کے مفہوم کو معیّن کرتے ہوں۔ مگر دجال و کذاب،فریبی و مکار انسان عموماً گول مول الفاظ میں پیش گوئی کرتے ہیں۔ جس میں کوئی جھوٹ کا پہلو نہیں نکل سکتا۔ پہلے سے ہی ان کی پیش گوئی کے الفاظ میں بہت گنجائش ہوتی ہے۔ گویا موم کی ناک کی طرح ہوتی