احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
نمبر۲والی آیت کا جواب مولانا احمد علی قادیانی! آپ کی دلیل کی بنیاد آیت ’’عن عبادتکم لغافلین (یونس:۲۹)‘‘پر ہے۔ یعنی جن کی سوائے اﷲ تعالیٰ کے عبادت کی گئی تھی۔ وہ روز قیامت اپنے پجاریوں کو کہیں گے کہ ہم تو تمہاری عبادت سے بالکل بے خبر ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت آپ کے فوت ہونے کے بعد بگڑی ہے۔ اگر آسمان پرزندہ ہوتے تو دنیا میں نازل ہونے کے بعد لوگوں سے سن کر قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ مجھ کو میری قوم نے معبود نہیں پکارا یامیں بے خبر ہوں۔ لیکن صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی امت کی پوجا کرنے سے با خبر ہوں گے۔ جیسا کہ مسند احمدمیں ہے (ج اول ص۲۸۲،۲۸۳)’’عن ابن عباس قال قال رسو اﷲﷺ،فیأتون عیسیٰ فیقول لست ھناکم انی اتخذت الھا من دون اﷲ‘‘{حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اﷲﷺ نے کہ قیامت کا دن بڑا ہوگا کہ چلو عنداﷲ شفاعت کرائیں۔ چنانچہ حضرت آدم سے چلتے چلتے حضڑت عیسیٰ سے آکر عرض کریں گے کہ آپ ہماری اﷲ تعالیٰ کے پاس شفاعت کیجئے۔ آپ جواب دیں گے کہ نہیں ہوںمیں شفاعت کرنے والا۔ کیونکہ میں دنیا میں معبود بنایاگیا ہوں۔(سوائے اﷲ تعالیٰ کے)} اگر آپ کے عقیدہ کے مطابق فوت شدہ ہیں تو واقعی قیامت کے روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی امت کے بگڑنے کی خبر نہ ہوتی۔معلوم ہواکہ زندہ ہیں۔ کیونکہ آسمان سے نازل ہونے کے بعد ان کو یہ تمام حالات معلوم ہو جائیں گے کہ مجھے اورمیری ماں کو میری قوم نے معبود پکارا ہے۔ اسی لئے روز قیامت وہ رب العالمین کے دربار میں حاضر ہونے سے پہلے ہی اس بات کااظہار کریں گے کہ میں شفاعت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ مجھے اور میری ماں کو میری قوم نے معبود پکارا تھا۔ ان تمام مذکورہ بالاحالات سے ظاہر ہوا کہ حضرت ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں۔ وفات مسیح علیہ السلام پر ساتویں دلیل کی بیخ کن تردید اعتراض مولانااحمد علی قادیانی ’’قال فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنھا تخرجون (الاعراف:۲۵)‘‘ یعنی اے قوم بنی آدم تم زمین ہی میں زندگی بسر کرو گے اورزمین میں ہی مرو گے اورزمین ہی سے نکالے جاؤ گے۔ اس آیت میں فعل ’’تحیون‘‘ پر ظرف ’’فیھا‘‘ کومقدم کر کے تمام بنی آدم