احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
(درمنثور ج۵ ص۲۰۴)‘‘ اس پورے قول سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول یقینی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی اس کے قائل نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ استدلال کا یہ بالکل نیا طریقہ مرزا قادیانی نے نکالا ہے کہ ایک فقرہ کا آدھا مضمون جو ان کے مفید مدعا سمجھا گیا پیش کر کے ہم کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ جب مغیرہؓ نے لا نبی بعدہ کہنے سے منع کیا تو اس فقرہ ’’لانبی بعدہ‘‘ کی تردید کیونکر کر سکتے ہو۔ مگر حضرت مغیرہؓ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے متعلق جو کچھ فرمایا مرزا قادیانی کوئی جواب اس کا نہیں دیتے۔ اس لئے کہ اس سے ان کے نبی بننے کا مقصود فوت ہو جاتا ہے اور اسی طرح لفظ بعدہ پر بھی جناب مرزا قادیانی نے شاید نظر نہیں ڈالی یا اس سے تجاہل عارفانہ فرمایا۔ اس لفظ سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جس طرح آنحضرتﷺ کے قبل نبی آئے تھے۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے بعد بھی وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی نازل ہوں گے۔محض ان الفاط سے مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میں وہ نبی ہوں، درست نہیں ہو سکتا۔ جبکہ بعدہ کی ضمیر آنحضرتﷺ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مرزا قادیانی صرف ’’لاتقربوا الصلوٰۃ ‘‘ کہلوانا چاہتے ہیں تو دوسرے کیوں ماننے لگے وہ تو ’’وانتم سکریٰ‘‘ کے ساتھ ہی اس کو پڑھیں گے۔ اسی طرح حضرت مغیرہؓ کا پورا قول لے کر استدلال کیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ نہ کہو کہ بعد آنحضرتﷺ کے دنیا میں نبی نہیں آئیں گے بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی آئیں گے۔ علماء کے اقوال لا نبی بعدہ کے متعلق اس کے بعد مرزا قادیانی اپنی نبوت کے ثبوت میں چند علماء کے اقوال مندرجہ ذیل نقل کر کے دلیل لاتے ہیں کہ بعد آنحضرتﷺ کے نبوت ختم نہیں ہوئی۔ اگرختم ہوئی تو وہ تشریعی نبوت ختم ہوئی۔ لیکن ظلی نبوت ختم نہیں ہوئی۔ اس بیان کی تائید میں حضرت ملا علی قاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں۔ ’’لوعاش ابراہیم وصارنبیا وکذا لوصار عمرنبیا لکان من اتباعہ لعیسیٰ وخضر والیاس علیہم السلام فلاینا قض قولہ خاتم النبیین اذا المعنی انہ لا یاتی بعدہ نبی ینسخ ولم یکن من امتہ‘‘ یعنی اگر حضرت ابراہیم (صاحبزادہ رسول اکریمﷺ)زندہ ہوتے تو نبی ہوتے۔اسی طرح حضرت عمرؓ آنحضرتﷺ کے تابع ہیں۔ پس یہ ان کا قول خاتم النّبیین کے نقیض نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہوں گے جو ان کے ملت کو منسوخ کر دیں گے۔ اس کے بعد شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی کا قول استدلال میں پیش کیا گیا ہے۔