احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
حیات مسیح علیہ السلام کی بارھویں دلیل ۱… ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی (بنی اسرائیل:۱)‘‘ {پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔} یعنی آنحضرتﷺ کو باری تعالیٰ نے اسی خاکی جسم کے ساتھ معراج کرائی۔ چنانچہ قرآن کریم میں لفظ عبد کا روح مع الجسم ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے نہ کہ فقط روح کی طرف۔ جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے، ملاحظہ ہو۔ ۲… ’’ولقد اوحینا الی موسیٰ ان اسربعبادی (طٰہٰ:۷۷)‘‘ {اور البتہ تحقیق وحی بھیجی ہم نے طرف موسیٰ علیہ السلام کے کہ سیرکراؤ میرے بندوں کو۔} مولانا احمد علی صاحب! کیا اس سے مراد روحوں کو سیر کرانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم فرمایا ہے یا کہ روح مع الجسم کو؟ اگر آپ اس آیت سے روح مع الجسم کا مفہوم لیتے ہیں تو پیش کردہ آیت’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ‘‘ میں عبد سے مراد روح مع الجسم کیوں نہیں لیتے؟ ۳… ’’وان کنتم فی ریب مما نزلناعلی عبدنا (البقرۃ:۲۳)‘‘ {اگر تم کو شک ہو کہ میں نے اپنے بندے(حضرت محمدﷺ) پر قرآن کریم نہیں اتارا۔} سوال… کیا آنحضرتﷺ کی روح مبارک پرقرآن کریم نازل ہوا تھا یا کہ روح مع الجسم پر؟ ۴… ’’الحمدﷲ الذی انزل علی عبدہ الکتاب (الکہف:۱)‘‘ {سب تعریف واسطے اﷲ تعالیٰ کے ہے جس نے اتارا اوپر بندے اپنے کے اس قرآ ن کریم کو۔} کیا یہاں ’’عبد‘‘ سے مراد روح لو گے یا روح مع الجسم؟ ۵… ’’تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا (الفرقان:۱)‘‘ {بابرکت ہے وہ اﷲ تعالیٰ جس نے اتارا قرآن کریم کو اوپر بندے اپنے کے یہ کہ ہو واسطے جہاں کے ڈرانے والا۔} کیا مولانا احمد علی صاحب! یہ قرآن کریم تمہارے نزدیک آقائے حضورﷺ کی روح مبارک پر نازل ہوا تھا یا روح مع الجسم پر؟ اگر روح مع الجسم پر نازل ہونا آپ کو قبول ہے تو آیت ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ‘‘ میں بھی یہ لازمی ماننا پڑے گاکہ رسول خداﷺ کو جسمانی معراج ہوئی نہ کہ روحانی۔ جیسا کہ قرآن کریم ’’عبدہ‘‘ سے مراد روح مع الجسم فرمایاہے۔ ۶… ’’قال الشیخ الاکبر قدس سرہ ان معراجہ علیہ السلام اربع