احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
مسیح موعود (مرزا) بانی سلسلہ احمدیہ نے ۱۹۰۵ء میں شائع کی تھی اور دو الہاموں پر مشتمل تھی۔ یہ الہام آپ کو ۳؍مئی ۱۹۰۵ء کو ہوئے تھے اور ان کے الفاظ یہ تھے(۱)’’مارمیت اذرمیت ولکن اﷲ رمیٰ‘‘ (۲) ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا؟‘‘ (تذکرہ ص۵۴۷، طبع۳) خلیفہ قادیانی کی اس عبارت سے واضح ہے کہ یہ دونوں الہام ایک ہی پیش گوئی کے دو جزو ہیں۔ جو کابل سے تعلق رکھتی ہے اور اس پر دس ورق سیاہ کئے ہیں۔ جن کاخلاصہ یہ ہے کہ پہلا الہام بچہ سقا اور امیر امان اﷲ خان صاحب کی جنگ کے متعلق ہے۔ بچہ سقا اور اس کے ہمراہی مرزائے آنجہانی کی کنکریاں ہیں۔ جو امیر امان اﷲ خان صاحب کو لگیں اور وہ بڑی بھاری شکست کھا کر ملک سے بھاگ گئے اور یہ شکست ان کو اس لئے ہوئی کہ وہ فتنہ مرزائیت کی مخالفت کی وجہ سے عذاب کے مستحق قرار پا چکے ۱؎ تھے۔ خلیفہ قادیانی نے اس امر موہوم کو جنگ بدر کا نمونہ قرار دیا ہے اور دوسرا الہام غازی محمد نادر خان شاہ افغانستان کی موت وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اے طالبان حق! خلیفہ قادیان نے اپنے دجل و فریب کا خوب مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ابا جان کی تشریحات کو پائے استحقار سے ٹھکرا کر سینہ زوری سے ان گول مول الہاموں کو پیش گوئی قرار دیا ہے اور اپنے مریدوں میں اضافہ کرنے کے لئے خوب ہاتھ پاؤں مارے ہیں۔ پہلا الہام اوراس کی حقیقت اے حق و صداقت کے تلاش کرنے والو!آؤ اور دیکھو کہ خلیفہ قادیانی نے کس قدر ۱؎ قادیانی کے سرکاری گزٹ (الفضل مجریہ ۱۹؍اگست ۱۹۲۴ء ص۹کالم۳)پرلکھا ہے کہ:’’ امیر کابل (امان اﷲ خان) نے ملانوں کے ڈر سے اپنی غیر احمدیت کا ثبوت دینے کے لئے یہ راہ اختیار کی ہے۔‘‘ لاہوری مرزائی جماعت کے واحد اخبار ’’پیغام صلح‘‘ نے عدالت کابل کے وحشیانہ فعل سے امیر امان اﷲ خان کی بیزاری کے زیرعنوان وزیرخارجہ قونصل جنرل افغانستان کا ایک تار نقل کیا ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ:’’حکم سنگساری نعمت اﷲ حکم خصوصی شاہانہ اعلٰحضرت غازی نیست بل حکم محکمہ عالیہ قضات شرعیہ افغانستان است۔ (پیغام صلح مجریہ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۲۴ء ص۱) پس سمجھ میں نہیں آتا کہ جس حالت میں نعمت اﷲ مرزائی کے قتل کو امان اﷲ خان پسند نہ کرتے تھے۔ بلکہ بقول پیغام صلح اس سے وہ بیزار تھے تو قدرت نے اس قتل کی سزا امان اﷲ خان کو کیوں دی؟ (کرے مونچھوں والا پکڑاجائے داڑھی والا)چہ خوب؟(محمد بہاء الحق قاسمی عفاء اﷲ عنہ)