احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
وفات مسیح علیہ السلام پر نویں دلیل کی بیخ کن تردید اعتراض مولانااحمد علی قادیانی ’’والسلام علیّ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا (مریم:۳۳)‘‘ یعنی مجھ پر سلامتی ہے جس دن پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ اس جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعات صرف تین ذکر کئے گئے ہیں جو کہ بعینہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بھی بیان ہوئے ہیں۔ اگر مسیح علیہ السلام کی زندگی میں رفع جسمانی اوردوبارہ نزول کے دو اہم واقعات بھی رونما ہونے والے ہوتے تو ان کو خصوصیت سے بیان کیاجاتا۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات اور رفع جسمانی اور دوبارہ آمد کا خیال محض فسانہ اور برخلاف قرآن مجید ہے۔‘‘ (نصرۃ الحق ص۱۱۳ مصنفہ احمد علی شاہ قادیانی) جواب اوّل مولانا احمدعلی قادیانی خود اپنے رسالہ میں راقم ہیں:’’کان النبیؐ یحب موافقۃ اھل الکتاب فیما لم یؤمر فیہ‘‘ یعنی حضورﷺ کو جس امر کے متعلق ابھی کوئی حکم نہ ملا ہوتا آپ اس میں اہل کتاب کے طریق کو محبوب جانتے تھے۔ (بخاری ج۲ ص۸۷۷، کتاب العباس باب الفرق) اس سے ظاہر ہے کہ نبیوں کو تمام ضروری علم یکدم نہیں دیا جاتا۔ آنحضرتﷺ کو بھی علوم قرآنیہ پہلے ہی دن نہیں بلکہ ۲۳ سال کے عرصہ میںکامل طور پر عطاء ہوئے۔ لیکن اگر کوئی یہودی آنحضرتﷺ کے اس سابقہ طریق عمل کو اپنے قبلہ بیت المقدس کی تائید میں پیش کرے تو اس کی صریح بے وقوفی ہے۔ بانی جماعت احمدیہ تحریر فرماتے ہیں’’کیا کیا اعتراض بنا رکھے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے سے پہلے براہین احمدیہ میں عیسیٰ کے آنے کا اقرار موجود ہے۔ اے نادانو! اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہو…اور مجھے کب اس بات کا دعویٰ ہے کہ میں عالم الغیب ہوں۔‘‘ (نصرۃ الحق ص۶۴) مولانا احمد علی قادیانی کو اپنی تحریر کے مطابق یہ تو ثابت ہو چکا کہ کوئی رسول بھی عالم الغیب نہیں… جب کوئی رسول بھی عالم الغیب نہیں تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام جو کہ آپ نے حضرت مریم علیہا السلام کی گود میں لوگوں کے ساتھ کیا تھا، اس پر یہ اعتراض کرنا کہ آپ نے تین ہی واقعات کاذکر کیا ہے۔ یعنی ولادت، موت اور بعثت۔ اگر ان کو آسمان پر اتنا عرصہ زندگی گزارنی تھی تو ضرور پانچ واقعات کاذکر کرنا چاہئے تھا جو نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ آسمان پر وہ زندہ نہیں۔