احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
M ’’الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ‘‘ مرزا قادیانی کی پیش گوئیوں پرایک اجمالی نظر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ پیشین گوئی کرنا اور اس کا سچا نکلنا بزرگی یا نبوت کی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں ایسے ہزاروں انسان ہو گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں کہ جو پیشین گوئیاں کرتے ہیں اور وہ سچی نکلتی ہیں۔ چنانچہ آج کل بعض لوگوں نے اس کو اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا ہے۔ مرزا قادیانی بھی ہمارے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو ان کی الہامی کتاب (براہین احمدیہ ص۴۶۷ تمہید ششم، خزائن ج۱ ص۵۵۸)’’بجز انبیاء کے اور بھی ایسے لوگ بہت نظر آتے ہیں کہ ایسی ایسی خبریں پیش از وقوع بتلایا کرتے ہیں کہ زلزلے آویں گے، وبا پڑے گی۔ لڑائیاں ہوں گی، قحط پڑے گا۔ ایک قوم دوسری قوم پر چڑھائی کرے گی۔ یہ ہوگا،وہ ہوگا او ر بارہا کوئی نہ کوئی ان کی خبر سچی نکل آتی ہے۔‘‘ بہرحال پیش گوئی کا سچا نکلنا مامور من اﷲ ہونے کی دلیل نہیں ہے اور ہو بھی کیونکر جبکہ رمل و جفر کے جاننے والے نجوم کے ماہر پیش گوئیاں کرتے ہیں اور وہ سچی نکلتی ہیں۔ جیسے ابومعشرجعفر بن محمد بلخی متوفی ۲۷۲ ہجری جو فن نجوم کا امام گزرا ہے اور اس فن میں متعدد تصانیف جیسے مدخل، زیچ، المذکرات، الالوف یادگار چھوڑی ہیں۔ اس کی پیش گوئیوں کا مطالعہ کیا جائے (تفصیل کے لئے دیکھو دائرۃ المعارف وابن خلکان) بنابریں اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ مرزا قادیانی کی بعض گول مول پیش گویاں سچی نکلی ہیں تو کیا اس سے مرزا قادیانی مامور من اﷲ اور مرسل ثابت ہو سکتے ہیں؟ہرگز نہیں۔ جیسا کہ (اشاعت السنہ ج۱۵ص۲۹) پر لکھا ہے کہ:’’مرزا قادیانی نے سید ملک شاہ ساکن سیالکوٹ سے جس کو علم نجوم اور رمل و جفر میں دخل تھا، استفادہ کیا۔‘‘ اور ممکن ہے کہ مرزا قادیانی کی طبیعت میں کہانت کا مادہ ہو اور کاہن بھی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ جو عموماً سچی نکلتی ہیں۔ جیسا کہ امام رازیؒ نے (تفسیر کبیر جلد۴)میںایک کاہنہ کا قصہ نقل کیا ہے کہ شہر بغداد میں ایک کاہنہ رہا کرتی تھی۔ جس کو سنجر بن ملک شاہ والی خراسان بغداد سے خراسان لے گیاتھا۔ بادشاہ نے اس کاہنہ سے آئندہ پیش آنے والے چند واقعات دریافت کئے۔ جو اس نے تفصیل کے ساتھ بیان کئے اور وہ اپنے اپنے وقت پر حرف بحرف پورے نکلے۔