احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
دے کر پاکستان کے دشمن قرار دیئے جا چکے ہیں اور مرزا محمود قادیانی اپنے خواب کی تعبیر کو عملی شکل دینے کے لئے پاکستان میں قیام فرما کر مسلمانوں کے خوان کرم سے متمتع ہو رہے ہیں(یاد رہے کہ مرزائیوں کے نزدیک اس ملک کے تمام باشندے کافر ہیں حتیٰ کہ قائداعظم کی نماز جنازہ بھی ہمارے وزیرخارجہ نے نہیں پڑھی) ترک جہاد کے فلسفہ کے علمبرداروں کا وجود رسوخ اور تبلیغی جدوجہد اس وقت ہمارے ملی عزائم کو کیا کچھ نقصان پہنچا سکتی ہے؟ یہ اہل نظر حضرات سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ یہ ریاست بہاولپور کے معرکۃ الآراء فیصلہ کے پیش نظرجس کو میں عہد حاضر کی بہت بڑی اسلامی خدمت سمجھتا ہوں اورریاست کو تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں مومنانہ اقدام پردلی مبارک باد پیش کرتاہوں۔ جس میں پاکستان اور ہندوستان کے علماء نے متفقہ طور پر دلائل و براہین سے مرزائیوں کے ارتداد کو ثابت کر دیا ہے۔ مرزائیوں کو مسلمانوں سے قطعاً الگ ایک علیحدہ اقلیت قرار دے دیا جائے اور ان کو ان کے تناسب آبادی کے مطابق حقوق تفویض کئے جائیں۔ لیکن ان کا ختم نبوت اور تکفیر مسلمانان عالم کے بعد ان کو اسلام کا لیبل استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ حق وباطل میں امتیازباقی رہے کہ کفر و اسلام میں امتیاز کا باقی نہ رہنا سب سے بڑا فتنہ ہے۔‘‘ (ہفت روزہ حکومت،کراچی،۲۳؍جنوری ۱۹۵۲) آئینہ قادیانی ٹولی کی نسبت پاکستانی اخبارات کی رائے اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ ۱… ’’قادیانی ایک ہی وقت میں ہندوستان اور پاکستان کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘ (زمیندار) ۲… ’’وہ بہت منحوس گھڑی تھی۔ جب چوہدری ظفر اﷲ خان کو وزارت خارجہ کا قلمدان سپرد کیا گیا۔‘‘ (مغربی پاکستان) ۳… ’’سرظفر اﷲ امور خارجہ میں پاکستان کو برطانیہ کا خیمہ بردار نہ بنائے۔‘‘ (نوائے وقت) ۴… ’’پاکستان کے قادیانی پاکستان کواپنا وطن نہیں سمجھتے بلکہ قادیان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔‘‘ (احسان)