احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سے پوچھے کہ تمہیں ان کے پاخانے او ر حجامت کا کیا فکر۔ تمہیں جس طرح خدا و رسول نے فرمایا اس پر بلاچون و چرا ایمان لاؤ۔ تمہارے یہ جملہ و ساوس شیطانیہ و اعتراضات رکیکہ اہل ایمان کے قلوب پر کچھ بھی اثر نہیں کرتے۔ اہل حق تو ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے: ’’اذاجاء نہر اﷲ بطل نہرمعقل‘‘{جب اﷲ کی نہر آ جائے تو عقل کی نہر باطل ہو جاتی ہے۔} کتاب اﷲ و حدیث رسول اﷲ و کتب تفاسیر میں ان تمام شبہات کا قلع قمع موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:’’لولاانہ کان من المسبحین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون‘‘ یعنی اگر یونس علیہ السلام آیت کریمہ:’’لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘ نہ پڑھتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں اسی طرح رہتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ در صورت عدم تسبیح یونس علیہ السلام قیامت تک زندہ رہ سکتے تھے۔ اگر بشر کے لئے یہ ممکن نہ تھا تو اﷲ عزوجل ایسا نہ فرماتا۔ شرط اور جزا کا قاعدہ واضح باد کلمہ کی شرط اگر ممکن الوقوع ہو بشرطیکہ کلام صحیح ہو تو اس کی جزا بھی ممکن الوقوع ہوتی ہے۔ چونکہ یونس علیہ السلام کی عدم تسبیح بالاتفاق ممکن الوقوع تھی۔ لہٰذا ان کا تاقیامت زندہ رہنا بھی ممکن الوقوع ٹھہرا۔ اب بتاؤ در صورت عدم تسبیح یونس علیہ السلام لوازمات بشریہ کا کیا انتظام کرتے:’’فما ھو جوابکم فھو جوابنا‘‘ او ر اگر یونس علیہ السلام تا قیامت زندہ نہیں رہ سکتے تھے تو پھر اﷲ تعالیٰ کی اس بیان سے کیا غرض ہے؟ کیا نعوذ باﷲ اﷲ تعالیٰ نے غلط کہا ہے:’’فافہم وتدبرولاتکن من الغافلین والمعاندین۔‘‘ مرزائی اعتراض… زمین پر حیات؟ قرآن میں ہے:’’الم نجعل الارض کفاتا،احیاء اوامواتا ‘‘ {کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کے لئے کافی نہیں بنایا۔}نیز فرمایا:’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین‘‘{تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا اور فائدہ ہے ایک مدت تک۔} :’’فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنہا تخرجون‘‘ {تم زمین میں زندہ رہتے ہو، اسی میں مرو گے اور اسی سے اٹھائے جاؤگے۔} یہ ایک عام فہم قانون الٰہی ہر فرد، بشر پرحاوی ہے۔ پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس کے صریح خلاف حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود ہوں؟