احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سے ناواقفیت اورجہالت کی دلیل ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جب توریت لینے گئے تو ان کی قوم نے ان کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ جس کے متعلق ارشاد باری ہے:’’واذواعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ثم اتخذتم العجل من بعدہ وانتم ظلمون (بقرہ)‘‘ {پھر تم نے موسیٰ کے بعد بچھڑے کو پوجا اور تم ظالم ہو۔} جو معنی اس جگہ ’’بعد‘‘ کے ہیں۔ وہی معنی کلام مسیح میں بھی ہیں۔ کیا آیت ہذا میں ’’بعد‘‘ سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہے؟ ہرگز نہیں۔ مرزائی اعتراض… موسیٰ وعیسیٰ زندہ ہوتے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ موسیٰ و عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے۔ معلوم ہوا کہ عیسیٰ وفات پا گئے۔ جواب اعتراض اﷲ اکبر! ڈوبتے کوتنکے کا سہارا۔ کجا آیات قرآنیہ اور نصوصات حدیثیہ جن میں بالتصریح مسیح علیہ السلام کی حیات آسمانی و نزول جسمانی کا ذکر ہے اور کجا یہ بے سند قول۔ ذرا آپ پہلے اس کی سندتو پیش کریں۔ سچ ہے:’’لولاالا سناد لقال من شاء ماشاء (مقدمہ صحیح مسلم)‘‘ اگر سند نہ ہوتی تو جو جس کے جی میں آتا کہہ دیتا۔ جس کتاب سے آپ نے یہ قول نقل کیا ہے۔ وہ خود حیات مسیح کے قائل ہیں۔ یعنی امام ابن کثیر وغیرہ۔ اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نام تغلیباً آ گیا ہے۔ جیسے تغلیباً شمین، قمرین، حسنین وغیرہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ورنہ اصل روایت میں صرف موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے:’’لوکان موسیٰ حیاء لما وسعہ الا اتباعی (احمد،بیہقی فی شعب الایمان،مشکوٰۃ ص۳۰، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)‘‘ یعنی اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بجز میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ ہوتا۔‘‘ تمام روایت میں صر ف موسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر ہے۔ ابن کثیر میں بھی اوپر کی دو روایتوں میں صرف موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے۔نیچے کی روایت میں عیسیٰ علیہ السلام کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اس وقت زمین پر زندہ موجود ہوتے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام بھی تو تمہارے نزدیک آسمان پر زندہ موجودہیں۔ جو جواب ان کے بارے میں دو گے۔ وہی حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں بھی سمجھ لو۔ مرزائی اعتراض… شرح فقہ اکبر میں لوکان عیسیٰ حیّا ہے؟ (شرح فقہ اکبر مصری ص۹۹)میںہے:’’لوکان عیسیٰ حیا لما وسعہ الا