احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کیا تکمیل دین کے لئے مرزا قادیانی کی ضرورت تھی؟ ترمذی کی حدیث بہت صاف ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی قال فشق ذلک علی الناس فقال لکن المبشرات فقالوا یارسول اﷲ وما المبشرات قال رویا المسلم وھی جزء من اجراء النبوۃ (ترمذی ج۲ ص۵۳)‘‘ {نبوت اور رسالت تو بالکل منقطع ہو گئی۔ آنحضرتﷺ کے بعد نہ پھر کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔ لیکن مبشرات تو لوگوں نے عرض کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کا رویا جو ایک جزو ہے اجزائے نبوت سے۔} رویا کے معنی وہ حالت جو خواب میں دیکھی جائے۔ اس کے بعد کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کوئی ظلی نبی آنے والا ہے اور تشریعی نبی کا کوئی پتہ چلتا ہے؟ میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ الفاظ خاتم النّبیین کے بعد کوئی استثنائی شکل نہیں ہے۔ اسی طرح اس حدیث میں بھی کسی ظلی نبی یا تشریعی نبی یا متبع نبی کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ اگر ایسے کسی نبی کا آنا ممکن ہوتا تو ’’لانبی بعدی‘‘ کے الفاظ خاص استثنیٰ کے ساتھ ارشاد نہ ہوتے۔ بلکہ ’’لانبی بعدی لکن الظلی‘‘ فرمائے جاتے۔ صرف ’’لکن المبشرات‘‘ ارشاد نہ ہوتا۔ اس لفظ لکن نے ظلی نبوت بند کر دی۔ ’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت‘‘ کی سیاق عبارت بھی صاف بتلا رہی ہے کہ کوئی نبوت خواہ وہ تشریعی کے نام سے ہو یا ظلی کے طور پر،باقی نہیں رہی۔ جو چیز مستثنیٰ ہے وہ بتلادی گئی ہے۔ یعنی مبشرات اور حدیث صحیح مسلم کی رو سے تو ایسا شخص نبی نہیں جس نے حج بیت اﷲ کا نہ کیا ہو۔ جونبی ہو گا، وہ ضرور حج بیت اﷲ شریف سے فارغ ہو گا۔ چنانچہ ’’ما من نبی الاحج البیت اﷲ‘‘ شاید قادیانی ظلی نبی کے لئے حج فرض نہ ہوگا یا وہ مستثنیٰ ہوگا۔ اسی لئے مرزا قادیانی بغیر حج کے نبی ظلی ہو گئے۔ ایک اور حدیث صحیح بخاری اور مسلم کی سن لیجئے۔ قال رسول اﷲﷺ’’لعلی انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی (بخاری ج۲ ص۶۳۳، مسلم ج۲ ص۲۷۸)‘‘ {فرمایا رسول کریمﷺنے علیؓ کو تو میرا ایسا ہے جیسا ہارون تھا موسیٰ کا لیکن یہ کہ نہیں ہے کوئی نبی بعد میرے۔} اب خیال فرمائیے کہ اس حدث میں بھی ’’لانبی بعدی‘‘ کے ساتھ استثنیٰ کسی ظلی نبی یا متبع کا نہیں ہے۔ اس حدیث کی سیاق عبارت صاف یہ بتلا رہی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ’’لا نبی بعدی‘‘ کو کس مصلحت سے اس موقع پرارشاد فرمایا ہے۔ بادی النظر میں من موسیٰ تک