احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
قائلین وفات مسیح قرار دینا قطعاً جھوٹ اور افتراء ہے۔ ان کی روایات سے وفات ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ حیات ثابت ہوتی ہے۔ بنابریں امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کو بھی قائل وفات کہنا یقینا جہالت و ضلالت ہے۔ امام موصوف نے تو حضرت ابوہریرہؓ کی روایت جس میں نزول مسیح کا ذکر اور تاہنوز ان کے زندہ ہونے کا تذکرہ موجود ہے۔ یعنی وہ روایت جس میں آیت :’’وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ سے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲعنہ نے حیات مسیح پر استدلال کیا ہے۔ اپنی صحیح میں درج فرما کر مسئلہ حیات مسیح کو واضح کیا ہے۔ جس سے مرزا قادیانی کامثیل مسیح ہونے کا دعویٰ بالکل باطل ہو کر رہ جاتاہے۔ اسی وجہ سے تو مرزا قادیانی نے غصہ میں آکر (ضمیمہ نصرۃ الحق ص۲۳۴، خزائن ج۲۱ ص۴۱۰) میںابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کو غبی، فہم قرآن میں ناقص اور درایت میں حصہ نہ رکھنے والا قرار دے کر دریدہ دہنی کی ہے۔ اس حدیث میں رسول اﷲﷺ نے قسم کھا کر نزول مسیح کا اظہار فرمایا اور ابوہریرہؓ نے آیت قرآنی کے ساتھ اس پر یہ مہر تصدیق ثبت کر دی اور امام بخاریؒ نے اسے صحیح بخاری میں درج فرماکر مسئلہ حیات مسیح کو واضح و ثابت کر دیا۔ اس پر بھی یہ کہہ کر دھوکہ دینا امام بخاریؒ نعوذباﷲ وفات مسیح کے قائل تھے، افتراء بازی نہیں تو اورکیا ہے۔ مرزائی دوستو! بخاری پھر پڑھو۔ امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے توبایں الفاظ باب منعقد کیا ہے’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ مزید تشفی کے لئے ہم ان کی تاریخ سے ان کا فرمان نقل کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:’’یدفن عیسیٰ بن مریم مع رسول اﷲﷺ وصاحبیہ فیکون قبرہ رابعا کذا فی الدر المنثور ج۲ص۲۴۵‘‘ یعنی فرمایا امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حجرہ نبوی میں نبی علیہ السلام اور آپﷺ کے صاحبین کے ساتھ دفن ہوں گے اور ان کی قبر چوتھی قبر ہوگی۔ کیوں جناب! اب بھی کہو گے کہ امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے؟ دیدہ باید۔ مرزائی اعتراض… امام مالک؟ امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ بھی وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ ’’قال مالک مات عیسیٰ (مجمع البحار و شرح اکمال الاکمال)‘‘ جواب اعتراض یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔ اول تو یہ قول بے سند ہے اورمالک کوئی مجہول شخص ہے۔ دہی میں جب مجھ سے بابوعمر دین قادیانی جو مرزائیوں کی طرف سے مشہو ر مناظر تھا، نے مسئلہ حیات و ممات مسیح پر مناظرہ کیا تو استدلالاً یہی قول پیش کیا۔ میں نے جواباً کہا کہ اس کی