احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اپنی زندگی آسمان پر گزارے تو بھی یہ صیغہ جمع ٹوٹ نہیںسکتا۔ بس روشن خیال اہل علم ایماندار لوگ حیات مسیح کے اس لئے ہی قائل ہیں۔ اعتراض ہشتم مرزائی ’’یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم وریشا (الاعراف:۲۶)‘‘ یعنی’’ اے بیٹو آدم کے تحقیق اتارا ہم نے اوپر تمہارا پہناوا کہ ڈھانکتا ہے شرمگاہ تمہاری کو اور پہناوا زینت کا۔‘‘ غیر احمدیو! یہ قانون تو اولاد آدم کے لئے مکمل ہے۔ یعنی ہر انسان کو ضروری ہے کہ وہ لباس پہنے۔ اس سے ہر انسان کی زینت زیب دیتی ہے اور دوسری آیت میں یہ بھی حکم موجود ہے۔ جیسے ’’یابنی آدم خذوازینتکم عند کل مسجد وکلوا واشربواولا تسرفوا (اعراف:۳۱)‘‘یعنی’’ اے اولاد آدم علیہ السلام، پکڑو زینت اپنی نزدیک ہر نماز کے اور کھاؤ اور پیو اور نہ اسراف کرو۔یہ قانون تمام اولاد آدم کے لئے مکمل ہے۔ اگر بقول تمہارے ابن مریم کو آسمان پرزندہ سمجھا جائے تو پھر وہاں لباس اپنی نماز یا غیر نماز کے لئے کہاں سے لیتے ہوںگے۔ کیونکہ وہاں پر نہ تو جولاہے ہی کپڑے کا کام کرتے ہیں او ر نہ ہی کوئی کارخانے۔ پھر نماز کیسے پڑھتے ہوں گے۔ کیونکہ قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں پڑھا کہ آسمانوں میں کپڑوںکی دکانیں ہیں اور کپڑا پہننا اولاد آدم کے لئے فرض ہے یا معاذ اﷲ وہاں پر ابن مریم ننگے ہی زندگی کے روز گزار رہے ہیں۔ ان تمام باتوں سے مکمل پتہ چلتا ہے کہ اگر ان کو خداوند تعالیٰ نے زندہ رکھنا ہوتا تو زمین پر ہی زندہ رہتے۔ پھر کوئی اعتراض اس قسم کا ہرگز پیش نہ آتا۔ معلوم ہوا کہ وہ ضرور فوت ہو چکے۔ دوبارہ ان کا انتظار بے کار ہے۔ الجواب اول محمدیؐ مرزائیو!آپ نے اس آیت سے حیات مسیح علیہ السلام پرایسے اعتراض کئے ہیںجو کہ نامعقول ہیں۔ آپ نے قرآن مجید کو کبھی پڑھا نہیں ہوگا یا پڑھا تو ہوگا لیکن قرآن مجیدکے معنوں کی سمجھ نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ جو آپ نے اس آیت کی تشریح کرنے کے وقت یہ الفاظ جوبار بار دھرائے ہیں کہ آسمانوںپر نہ تو کوئی دکان اور نہ کوئی جولاہے اور نہ کارخانے تو ابن مریم کہاں سے لباس پہن کر نماز پڑھتے ہوںگے۔ افسوس! آپ کے خیال میں کپڑے یا تو جولاہے تیار کر سکتے ہیں یا کارخانے۔