احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ان کا مرتبہ بھی بلند ہو گیا۔ اگر توفی کے معنی موت لے کر رفع درجات لیا جائے تو یہ یہود کی مطابقت ہے۔ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح کو مار دیا۔ اب ان کے جواب میں یہ کہنا کہ ہاں ہاںمار تو دیا تھا۔ لیکن وہ عزت کی موت مرے اور مر کر درجہ بلند ہوگیا۔یہود کی تردید نہیں بلکہ عین تصدیق ہے۔ حالانکہ اﷲ عزوجل نے اس عقیدے کو لعنتی قرار دیا ہے۔ نیز ارشاد باری ہے: ’’ورفعنا فوقھم الطور(البقرہ:۶۳)‘‘{ہم نے بنی اسرائیل پر کوہ طور کو اٹھایا۔} اب بتائیے کہ کوہ طور کا مرتبہ بلند کیا تھا یا رفع سے مراد رفع روح ہے یا رفع جسم؟ ہر جگہ رفع کے معنی رفع درجات کے نہیں ہوتے فافہم و تدبر۔ مرزائی اعتراض… آسمان کہاں؟ اچھا مانا کہ رفعہ اﷲ میں خدا کی طرف اٹھانا مرقوم ہے۔ لیکن اس میں آسمان کا کہاں ذکر ہے؟ جواب اعتراض یاد رکھو اﷲ عزوجل بذاتہ و بنفسہ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش عظیم پر مستوی ہے۔ اس کے لئے جہت فوقیت ثابت ہے:’’وھو القاہر فوق عبادہ‘‘ اسی معنی کی رو سے قرآن مجید میں ارشادباری ہے :’’أمنتم من فے السماء ان یخسف بکم الارض (ملک آیات ۱۶، ۱۷)‘‘ نیز ’’أمنتم من فی السماء ان یرسل علیکم حاصبا‘‘ کیا تم خدا سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان پر ہے۔ کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان پر ہے۔ تمہیں زمین پر دھنسا دے یا تم پر ہواؤں سے پتھراؤ کر دے۔ اسی طرح نبی علیہ السلام انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے:’’قدنریٰ تقلب وجھک فی السماء (البقرہ:۱۴۴)‘‘نیز مرزا قادیانی نے بھی خود رفعہ اﷲ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عیسیٰ کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۶۴،خزائن ج۳ص۲۳۳) اس تحریر میں بعبارۃ النص رفعہ اﷲ کے معنی آسمان پر اٹھایا جانا موجود ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ مرزا قادیانی نے روح کا اٹھایا جانا لکھا ہے۔ سو اس کا ردمدلل ہم نے پہلے کر دیا ہے کہ یہ معنی یہود کی تقلید سے نکلے ہیں اور قرآن وحدیث کے سراسر خلاف ہیں۔ مرزائی اعتراض… الیٰ غایت انتہائ؟ ’’رفعہ اﷲ‘‘میں مسیح کا زندہ بجسم خدا کی طرف اٹھایا جانا کسی طرح عقل تسلیم نہیں کرتی۔ کیونکہ لفظ ’’الی‘‘ غایت انتہاء کے لئے آتا ہے۔ تو کیا حضرت مسیح بلا فاصلہ خدا کے پہلو بہ