احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
چنانچہ (حمامۃ البشریٰ ص۸۸، خزائن ج۷ ص۳۱۲) پرکنز العمال کی روایت بابت نزول مسیح لکھتے ہیں:’’اس لفظ ’’من السمائ‘‘ کو چھوڑ گئے ہیں تاکہ نزول کے جو غلط معنی یہ لوگ کرتے ہیں۔ اس کی تردید نہ ہو جائے۔ یہی چالاکی مرزائی مصنف و معترض نے کی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث جو جابر ؓ سے مروی ہے۔ اس میں:’’ماعلی الارض‘‘ کا لفظ موجود ہے۔ یعنی نبی علیہ السلام نے فرمایا آج جتنے لوگ زمین پر موجود ہیں۔ سو سال تک ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا۔ ’’ماعلی الارض نفس منفوسۃ یأتی علیھا مائۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذ (مسلم)‘‘ مطلب صاف ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس میں داخل نہیں۔ کیونکہ وہ زمین پر موجود نہیں وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ لیکن مرزائی معترض کی خیانت دیکھو کہ ’’زمین پر آج کے لوگوں کے الفاظ ‘‘ اڑا کر ہر جاندار ترجمہ کر کے مسیح علیہ السلام کی وفات زبردستی ثابت کرتا ہے۔ آہ: چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد مرزائی اعتراض… متوفیک کا معنی ممیتک؟ حضرت ابن عباسؓ بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ آپ نے آیت’’متوفیک ‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ کئے ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ! میں تجھ کو فوت کرنے والا ہوں۔۔ جواب اعتراض یہ سراسر افتراء ہے اور مسلمانوں کو فریب دینا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ ہرگز وفات مسیح کے قائل نہیں۔ بلکہ حیات مسیح کے قائل ہیں۔ ’’کما مربیانہ‘‘ نیز ابن عباسؓ فرماتے ہیں:’’فرفعہ الی السمائ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آسمان پر اٹھا لیا۔ (نسائی ابن مردویہ) ’’اجمعت الیہود علی قتلہ فاخبراﷲ بانہ یرفعہ الی السمائ‘‘ یعنی یہود مسیح کو جب گرفتارکرنے کے لئے اکٹھے ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھائے جانے کی خبر دے کر اطمینان بخشا۔ (سراج منیر ج۱ ص۵۳۹) ’’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ‘‘(ابن جریر ج۵ص۱۲)یعنی آخر زمانے میں اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ اس اعتراض کا جواب پہلے ہی مفسرین نے دے کر معترضین کا منہ بند کر دیا ہے۔ چنانچہ تفسیر خازن و معالم میں تحت آیت ہذا مرقوم ہے:’’ان فی الایۃ تقدیما وتاخیرا تقدیرہ انی رافعک الیّ ومطھرک من الذین کفروا و متوفیک بعد انزالک الی الارض‘‘ یعنی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے جو ’’متوفیک‘‘