احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
حدیث لائے ہیںکہ حضرت عمرؓ نے حاتب صحابی بدری کو منافق واجب القتل کہا۔ مگر حضرت عمرؓ اس سے کافر نہیں ہوئے۔ اسی طرح جو شخص کسی بزرگ یا ولی اﷲ کو اس بناء پر کافر کہے کہ اس ولی بزرگ کی طرف سے اس کو ایسا کلمہ کلام پہنچا ہے۔ جس کو وہ کفر سمجھتا ہے۔ خواہ اس بزرگ نے وہ کلام نہ کہا ہو یا کہا ہو۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے کفر کا کلام نہ ہو۔ اس نے اس کلام سے کفر سمجھا ہو تو غلط فہمی کی بناء پر اس کو کافرکہنے والے کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جس بزرگ کے ایمان کی شہادت کتاب و سنت میں تو اتر کے ساتھ پائی جاتی ہو۔ ایک شخص اس تواتر کے مقابلہ میں اس کو کافر کہتا ہو تو اس کے کفر میں بحث ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث میں کفر سے مراد اس کا حقیقی نہیں۔ بلکہ اس جملہ ’’کفر دون کفر‘‘ میں جو کفر کا معنی ہے۔ وہی یہاں مراد ہے۔ یعنی گناہ، نہ کفر حقیقی، جس سے انسان ملت سے خارج ہو جاتا ہے۔ پس لاہوری پارٹی جو مرزا قادیانی کو کافر کہنے والوں کے متعلق اس حدیث کے رو سے کفر فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ان کو اس مسئلہ میں نظر ثانی کرنی چاہئے۔ یہ بحث تونبوت جدیدہ کے قبول کرنے پرکفر، عدم کفر بھی جس سے دوامت کی بنیاد پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مرزا قادیانی کے ماننے والوں او ر نہ ماننے والوں میںامور امتیازیہ میں جن کی بناء پر ماننے والوں پر کفر کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے۔ جس کی بناء ایک متواتر اور ضروریات کے انکار پر ہے۔ اس قسم کا کفر اگرچہ اہل قبلہ شیعی و سنی وخوارج وغیرہ بھی ایک دوسرے پر چسپاں کرتے ہیں۔ مگر قدیم فرقوں کی تکفیر اورمرزائی اور غیر مرزائی کی تکفیر میں فرق ہے۔ پہلی تکفیر سے دو امت کی بنیاد نہیں پڑتی۔ دوسری قسم سے دو امت کی بنیاد پڑتی ہے۔ کیونکہ قدیم فرقوں کے نزدیک مرجع دلائل صرف قرآن و حدیث ہے۔باقی صرف مبلغ ہیں۔ اگرچہ بعض ان کی شان میں بعض وقت غلو کر جاتے ہیں۔ بخلاف اس نئے فرقہ کے ان کے ہاں مرجع صرف مرزا قادیانی کے اقوال ہیں ۔ قرآن و حدیث تو ان کے نزدیک جیسے وہ کہتے ہیں، مداری کے پٹارا کی طرح ہیں۔ معاذ اﷲ۔ پس اس لئے ان کے کفر اور دوسرے فرق کے کفر میں فرق ہے۔ اس کتاب میں چونکہ بحث ختم نبوت کے عقیدہ سے ہے۔ اس واسطے اس میں دوسرے امور سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔ ’’واخردعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین۰سبحانک اللھم وبحمدک اشہد ان لاالہ الاانت استغفرک واتوب الیک اللہم اغفرلی۔‘‘