احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
’’فی الارض مستقرا ومتاع الی حین (البقرۃ:۳۶)‘‘ لہٰذا مذکورہ بالا تشریحات سے ثابت ہوا کہ واقعی حضرت مسیح علیہ السلام آیت پیش کردہ سے مستثنیٰ ہوکر بجسم خاکی آسمان پر تشریف فرما ہیں۔ جواب دوم ’’احل لکم صیدالبحر وطعامہ متاعا لکم وللسیارۃ (المائدہ:۹۶)‘‘ {حلال کئے گئے واسطے تمہارے شکار دریاؤں کے اور کھانا ان کا فائدہ ہے واسطے تمہارے اور واسطے مسافروں کے۔} اب دریافت طلب یہ ہے کہ ان دریاؤں کے اندر جو بھی ذی روح جانور موجود ہیں کیا یہ حلال ہیں؟ مثلاً مینڈک، کچھوا، سنسار، جونک وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ ’’صید البحر‘‘ ہیں تو پھر ان کا کھانا کیوںجائز نہیں؟ کیونکہ یہ جانور بالاتفاق اہل اسلام کے حرام ہیں۔کوئی بھی مسلمان ان کا کھانا جائز نہیں رکھتا۔ اگر ہاں جناب مرزا غلام احمد قادیانی نے ان کو کھانے کا فتویٰ دیا ہو تو مجھے علم نہیں۔ حالانکہ آیت مذکورہ بالا میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کا فرمان موجود ہے کہ تمہارے لئے دریاؤں کا شکار حلال کر دیا گیا۔ بلکہ تمہیں اس میں فائدے ہیں۔ پھر یہ کیا بات ہے کہ سوائے مچھلی اور جھینگا وغیرہ کے دوسرے تمام جانوروں کو حرام سمجھا جاتا ہے۔ ان جانوروں کو آیت مذکورہ بالا سے کیونکر مستثنیٰ کیا گیا ہے؟ اگر ان کو مستثنیٰ کرنا اس آیت سے جائز سمجھتے ہو تو پھر ضروری ہے کہ حضرت ابن مریم علیہ السلام بھی آپ کی آیت ’’ولکم فی الارض‘‘ سے مستثنیٰ ہوکر آسمان پر بخوبی جا سکتے ہیں۔ جس سے قرآن مجید کی آیت پر ہرگز زد نہیں آ سکتی۔ حیات مسیح علیہ السلام کی دوسری دلیل ’’ومکروا ومکراﷲ واﷲ خیر الماکرین (آل عمران:۵۴)‘‘ {اور مکر کیا یہود نے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا جائے اور اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اس کو بچانے کی ترکیب کی اور اﷲ بہتر تدبیریں کرنے والاہے۔} جس طرح یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ مکر و فریب کیا تھا کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ (بعینہ) کفار مکہ نے بھی حضرت محمدﷺ کو قتل کرنے کامکر وفریب کیا تھا۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، ملاحظہ ہو۔