احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
جواب اعتراض جب خاص دلائل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہو چکی ہے۔ تو پھر عمومات سے دلیل پکڑنا چہ معنی دارد؟ کتب اصول میں مقرر و مسلم اصول ہے کہ خاص دلیل عام پر مقدم ہوتی ہے اور ان دونوں کے مقابلہ میں دلیل خاص کا اعتبا ر کیاجاتا ہے۔ اس کے نظائر و امثلہ قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً عام انسانوں کی پیدائش کے متعلق قرآن مجید خبر دیتا ہے :’’انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج (الدہر)‘‘{ہر انسان ملے ہوئے نطفہ سے پیدا ہواہے۔} اب اس کے برخلاف حضرت آدم علیہ السلام، حضرت حوا علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت خاص دلائل سے معلوم ہو گیا کہ ان کی پیدائش اس طرح نہیں ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے اور اماں حوا علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ پس ان ہر سہ حضرات کے متعلق دلیل خاص کا اعتبار کیا گیا اور عام حکم سے خارج و مستثنیٰ سمجھے گئے جو فریقین کو مسلم ہے۔ آپ کا ان آیات کو پیش کرنا حیات مسیح علیہ السلام کے ہرگز منافی نہیں۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ زمین زندوں اور مردوں کے لئے کافی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک دن آسمان سے زمین ہی پر اتریں گے اور فوت ہونے کے بعد زمین ہی میں دفن ہوں گے۔ گو کچھ حصہ زندگی کا انہوں نے بحکم خدا آسمان پر گزارا۔ آج جو لوگ ہوائی جہاز کا سفر کرتے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے او ر دن و رات آسمان و زمین کے درمیان اڑ کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر کوئی منچلا کہنے لگے کہ یہ آسمان پر ان کا اڑنا ناجائز اور آیات ہذا کے خلاف ہے۔ کیونکہ زندگی اور مرنے کے بعد کے لئے تو زمین کافی ہے۔ تو آپ کیا جواب دیںگے؟ ’’ماھوجوابکم فھوجوابنا‘‘ نیز جس طرح آپ حضرات مذکورہ آیات سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مستثنیٰ کریں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کر لیجئے۔ مرزائی اعتراض… معبودان باطلہ مردہ ہیں؟ قرآن مجید میںہے:’’والذین یدعون من دون اﷲ لایخلقون شیئا وھم یخلقون، اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون (النحل)‘‘ {یعنی مشرک لوگ اﷲ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے ہیں۔ وہ مردہ ہیں۔ زندہ نہیں۔ پس عیسیٰ علیہ السلام بھی ان ہستیوں میں داخل ہیں۔ لہٰذا وہ بھی وفات یافتہ ہوئے۔}