احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
پس اس قدر صاف و صریح الفاظ کو جو مطلب خیز بھی ہیں، پیچدار کرنا اوردلائل اور براہین سے اپنے مفید مضامین اور معنی نکالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ اس لئے خدا نے فرما دیا ہے ’’ذلک بان الذین کفروا اتبعوا الباطل وان الذین امنوا اتبعوا الحق من ربھم(محمد:۳)‘‘{یہ کہ جو منکر ہیں وہ جھوٹی بات پر چلے اورجو یقین لائے انہوں نے سچی بات مانی جو اﷲ کی طرف سے ہے۔} ایک مثال ہے: ’’جو مشکل اور ذو معنی بات ہے تو اس کی تاویلات سے درگزر کر اگرچہ کہ وہ سچی ہوں۔‘‘ اس مثل کے بموجب بھی مرزا قادیانی کو ساکت ہو جانا چاہئے تھا۔ بخلاف اس کے ایسے الفاظ کو انہوں نے آلہ نبوت بنالیا۔ اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھنا فرض ہے۔ ’’یااہل الکتب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولوا علیٰ اﷲ الابالحق (مائدہ:۷۷)‘‘خداوندکریم کا صاف ارشاد ہے کہ ’’اے اہل کتاب اپنے دین کے امور میں ہرگز غلو مت کرو اور اﷲ کے اوپرغلط بات مت کہومگر سچی بات ۔‘‘ اﷲ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ دین محمدی میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو غلو کریں گے۔ اسی لئے اور مقامات پر بھی ’’لا تغلوا فی الدین‘‘ ارشاد فرمایا برخلاف ارشاد باری تعالیٰ کے غلو کرتے ہیں۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ مرزا قادیانی اپنی متعدد تصانیف میں یہ جتاتے جاتے ہیں کہ نبوت آنحضرتﷺ پر ختم ہو گئی اور اس پر میرا ایمان ہے اور پھر لفظ خاتم کی تاویلات کر کے اس بات کے ثابت کرنے کی بھی کوشش فرماتے رہے ہیں کہ لفظ خاتم بالکسر نہیں ہے۔ اس لئے نبی کا آنا ممکن ہے۔ مرزا قادیانی کی تحریرات میں اجتماع نقیضین پایا جاتا ہے۔ ایک طرف تو یہ فرمایا جاتا ہے کہ آنحضرت خاتم النّبیین ہیں۔ اس کے خلاف کہنے والے پر خدا کی لعنت بھیجتے ہیں اور دوسری طرف بزعم خود دو ایک حدیث اور مختلف بزرگوں کے اقوال لے کر ظلی نبی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تردید دلائل مرزاقادیانی اور تشریح ان اقوال کی جن کو مرزا قادیانی نے اپنی نبوت کے ثبوت میں پیش کیا ابن ماجہ کی ایک حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ’’ولوعاش ابراہیم لکان صدیقاً نبیا (ابن ماجہ ص۱۰۸)‘‘ یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ ہوتا تو سچا نبی ہوتا۔ اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر آنحضرتﷺ خاتم النّبیین تھے تو آپ کے صاحبزادہ نبی کیونکر