احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کہ میاں نور الدین بھیروی کی بھی عقل چکر کھا گئی۔ (اخبار الحکم مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۰ئ) جوقادیان سے برائے نام ایک پرچہ نکلتا ہے۔ اس میں نور الدین پوچھتے ہیں کہ یہ کتابیں دیکھنے کے لئے کہاں سے مل سکتی ہیں۔ سبحان اﷲ! بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرئہ خون نکلا جہلاء کم سمجھ نادان نور الدین پر کس قدر علمیت کا ظن رکھتے تھے۔ مگر شمس الہدایت نے علاوہ ان اشخاص کے جو اس کتاب کو دیکھ کر ہدایت پا گئے ہیں۔ ہر کس و ناکس پر یہ معجزہ نمائی کا کام بھی کردکھایا کہ نور الدین کی لیاقت کا اندازہ بھی اسی ضمن میں بخوبی معلوم ہو گیا: چہ خوش بود کہ براید بیک کرشمہ دوکار ابھی تک کتابیں دیکھنا تو درکنار نور الدین کے کان بھی ناآشنا ہیں اور استفسار سے پایا گیا ہے کہ نور الدین برائے نام ہی مرزائی جماعت میں مولوی گنا جاتا ہے۔ ورنہ اصل میں کچھ علمی مذاق نہیں رکھتا۔ گو نور الدین نے اسی اخبار الحکم میں لکھا ہے کہ میں نے ۴۰ صفحات تک کتاب شمس الہدایت دیکھی ہے۔ مگر اس کا جواب اس سے بھی آج تک کچھ نہ بن سکا اور تار عنکبوت سے بھی بودے اور نامعقول چند اعتراضات سے جو اس کی بے علمی اور کم بضاعتی پر دلالت کرتے ہیں، ٹالنے کی کوشش کی۔ الاّمولوی غازی صاحب نے جن کو سید صاحب موصوف کے خدام میں منسلک ہونے کا ایک فخر حاصل ہے۔ ان اعتراضات کے وہ پرخچے اڑائے کہ میاں نور الدین کو باردگریہ حوصلہ نہ ہوا کہ سید موصوف صاحب کے بندگان درگاہ کے سامنے آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکتا۔ مولوی غازی صاحب نے نور الدین کو بذریعہ مطبوعہ جواب یہ بھی لکھا کہ وہ کتابیں جن کے ناموں سے تمہارے کان ابھی تک آشنا نہیں ہوئے۔ بالمشافہ دکھانے پر بھی تیار ہیں۔ اس کتاب شمس الہدایت کو دیکھ کر جس میں نہایت متانت اور تہذیب سے مرزا کے بدعقائد کا رد کیا گیا ہے۔ مرزا سے اورتو کچھ نہ بن سکا کہ اس کا جواب ہی لکھتا اور ان قوی دلائل کو جو سید صاحب نے قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے پیش کئے ہیں،رد کرتا۔ لیکن کیا تو یہ کیا کہ عبدالکریم نامی اپنے ایک مرید سے جو عربی، فارسی علوم سے محض نابلد ہے، سید صاحب کی شان میں (الحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۰ئ)میںاپنی عادت قدیمانہ کے مطابق گالیاں نکلوا کر اپنے مشن کا عمدہ ثبوت دیا ہے۔