احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اس کا خاوند ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۴ء تک مر جاوے گا۔ مگر وہ آج تک نہ مرا اور خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحیح وسالم زندہ موجود ہے اور وہ عورت اس کے گھر میں آباد اور صاحب اولاد ہے۔ یہ ہیں مرزا کے الہامات اور ان کے پورا کرنے کے وسائل۔ بہردانا اشارتے کافی است سید پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے حالات اب ہم دوسرے صاحب جناب فیض ماب معلیٰ القاب حضرت پیر سید مہر علی شاہ ساکن گولڑہ شریف کا کچھ مختصر سا حال معرض تحریر میں لاتے ہیں۔ آپ ہندوستان میں ایک مشہور و معروف صوفیاء کرام کے باعث فخر ہونے کے علاوہ عالم باعمل و فاضل اجل بھی ہیں۔ بڑے بڑے علامہ دہر اور علمائے نامدار کو آپ کی شاگردی پر ناز ہے: کو فلاطوں کہ باہمہ فطنت طے کندزانوے سبق خوانی آپ ہی ہیں جنہوںنے محض بوجہ اﷲ اور فقط دین کی محبت سے خداوند تعالیٰ آپ کے وجود باجود کو جو کہ ایک چشمہ فیض ہے،دیر تک سلامت باکرامت رکھے۔ بے چارے سادہ لوح آدمیوں کو مرزا کے دام تزویر سے بچانے اور عوام الناس کو اس کے دھوکہ سے دور رہنے کے لئے ایک کتاب بنام ’’شمس الہدایت‘‘ لکھی ہے۔ جس میں مرزا کے بدعقائد کی نسبت محققانہ اور عالمانہ طور پر ایسی بحث کی کہ دوست تو دوست، دشمن بھی رطب اللساں ہیں اور اس لاجواب کتاب کو دیکھ اور پڑھ کر مرزا کے بہت سے مریدوں نے مرزا سے قطع تعلق کر کے دلی نفرت کی ہے۔ دیکھو (وکیل اخبار امرتسر مورخہ ۱۸؍جون ۱۹۰۰ئ۱؎)اور مرزا کو اتنی جرأت نہیں کہ اس کتاب کا جواب بھی لکھتا۔ سید صاحب موصوف نے مرزا کے مبلغ علم کا فوٹو پبلک کے سامنے ایسا رکھ دیا ہے کہ مرزا بذات خود دیکھ دیکھ کر اب بھی مارے ندامت کے پانی پانی ہوا جاتا ہے۔ آپ نے قرآن شریف اور ایسی ایسی دینی کتابوں، تفاسیروں وغیرہ کے مطابق مرزا کے عقائد بد کی بیخ کنی کی ہے ۱؎ اخبار وکیل ۱۸؍جون ۱۹۰۰ء ص۷، مقام کوٹ نجیب اﷲ خان ضلع ہزارہ سے منشی نواب الدین صاحب ایک طویل تحریر ’’ایک معجزہ بنائے انقلاب مذہبی‘‘ کے عنوان سے بھیجتے ہیں۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ بمقام گولڑہ کے پیر صاحب کی کتاب شمس الہدایت سے متاثر ہو کر ضلع ہزارہ کے تمام معتقدین مرزا قادیانی کے عقیدہ کے مخالف ہو گئے ہیں۔