احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ہیں۔} ’’ان الا رض یرثھا عبادی الصالحون (انبیاء :۱۰۵)‘‘ {زمین کے وارث میرے بندے صالح ہوںگے۔} ان دو آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے علاوہ تین کمالات صدیقیت شہادت اورصلاح باقی ہیں اور نبوت دلائل مذکورہ بالا کی بنا پر ختم ہو چکی ہے۔ معیت سے مراد کسی وصف ذاتی میں شرکت نہیں۔ بلکہ جنت میں داخل ہونے میں شرکت مراد ہے۔ جیسے ذیل سے معلوم ہوتا ہے۔ ’’التاجراالصدوق الامین مع النّبیین والصدیقین والشہدا (ترمذی، دارمی دارقطنی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ص۲۴۳)‘‘ {سچا امین تاجر( قیامت کے روز)نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔… اس حدیث کایہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ایسا تاجر نبی بن جاتاہے۔ ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید حدیث ذیل سے بھی ہوتی ہے۔ ’’عن عائشۃؓ فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیہم من النّبیین والصدیقین والشہداء و الصالحین (المتفق علیہ)‘‘ {مائی عائشہؓ فرماتی ہیں۔ میں نے رسول اﷲﷺ سے (وفات کے وقت) سنا، فرماتے تھے (یا اﷲ مجھے) ان لوگوں کے ساتھ کر جن پر تو نے انعام کیا، یعنی نبی، صدیقین، شہداء اورصالحین گروہ کے ساتھ کر۔} اب ظاہر ہے کہ رسول اﷲﷺ نبی رسول تھے۔ پھر بھی فرمارہے ہیں کہ یا اﷲ مجھے نبیوں، صدیقوں شہیدوں اورصالحوں کے ساتھ کر۔ اس کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ مجھے دنیا سے اٹھا کر اپنے قرب و جوار جنتہ الماویٰ میں پہنچاؤ۔ اس حدیث میں قرآن مجید کی تفسیر بالکل واضح ہو گئی کہ معیت سے مراد جنت میں داخل ہونا ہے نہ نبی بننا۔ سوال… قرآن مجید میں ہے نبی کے مبعوث ہونے کے بغیر عذاب نہیں آتا۔ ’’وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا (بنی اسرائیل:۱۵)‘‘ {جب تک رسول نہ بھیجیں۔ ہم عذاب نہیںکرتے۔} اور دوسری آیت میں فرمایا قیامت سے پہلے ہم ہر بستی کو ہلاک کریں گے یا عذاب کریں گے۔ پس ثابت ہوا کہ جب عذاب آئے گا تو اس سے پہلے ضرور کوئی رسول آئے گا۔ پس ثابت ہوا کہ نبوت جاری ہے۔ جواب… آیت سے تو اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اگر نبوت و رسالت کا سلسلہ نہ ہوتا تو اﷲ