احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
شخص نبی ہو۔ کیونکہ ہر شخص کو نبی کی اتباع کا حکم ہے اور ہر شخص صدیق و شہید اور صالح اس پر عمل کرتا ہے۔ بس چاہئے کہ ہر ایک ان میں سے نبی بنے۔ اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا گروہوں کے مختلف طریقے فرض کر لئے گئے ہیں۔ حالانکہ ان کا طریق ایک ہی ہے۔ فرق صرف مراتب کا ہے۔ عملی پروگرام سب کے لئے یکساں ہے۔ سوائے چند خصوصیات کے، سب فریق اعتقادو عمل میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ نبی اور غیر نبی میں فرق انتخاب کا ہے اور انتخاب میں استعداد کے علاوہ ضرورت کا بھی لحاظ ہے۔ جب ضرورت ختم ہو چکی تو اس کی جدوجہد اور اس کا مطالبہ بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بھی یہ دعا پڑھتے تھے اور صدیق بھی یہ دعا کرتے تھے مگر نبی نہیں بنے۔ کیونکہ نبی کی ضرورت نہیں رہی اور عورتیں بھی یہ دعا پڑھتی ہیں۔ حالانکہ عورت رسول نہیں بن سکتی۔ جب ان کا طریق ایک ہی ٹھہرا تو اس صورت میں اختلاف عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نبی اور صدیق میں عمل کا فرق نہیں بلکہ انتخاب کا ہے۔ اسی طرح صدیق اور شہید میں فرق باطنی ہے۔ یہی حال صالح اور غیرصالح میں فرق کا ہے۔ پس ان کے راستوں کو الگ الگ سمجھنا پہلی غلطی ہے۔ سورہ نساء سے استدلال کی بنیاد معیت کے مفہوم پر ہے کہ معیت کا معنی کیا ہے۔ کیا یہ مطلب ہے کہ جونبی کے ساتھ ہو وہ نبی ہے؟ یا یہ مطلب ہے کہ جہاںنبی گیا ہے یعنی جنت میں یہ بھی وہا ں جائے۔ یہاں دوسرا مفہوم ہی مراد ہو سکتا ہے۔ مرسل جیسے آیات ذیل سے لازم ہوتا ہے۔ ’’ان اﷲ مع الصابرین(بقرہ:۱۵۳)‘‘ {اﷲ صابروں کے ساتھ ہے۔} ’’ان اﷲ مع الذین اتقوا (نحل:۱۲۸)‘‘{اﷲ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔} اگر معیت عینیت کو مستلزم ہوتی تو ان آیات کا یہ مطلب ہوتا کہ اﷲ صابر ہے اور متقی ہے۔ معیت کے لئے جیسے یہ ضروری ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے ساتھ اس کی صفات میں شریک ہو۔ ویسے یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کی صفات میں شریک نہ ہو۔ بس جیسے یہ آیت اثبات نبوت کے لئے حجت نہیں۔ اسی طرح اثبات صدیقیت شہادت اور صلاح کے لئے بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ ان کا ثبوت اور عدم ثبوت دوسرے دلائل سے معلوم ہوگا۔ صدیقیت شہادت اور صلاح کے لئے تو دوسری جگہ صراحت موجود ہے۔ ’’والذین امنوا باﷲ ورسلہ اولئک ہم الصدیقون والشہداء عند ربھم‘‘ {جو اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی اپنے رب کے ہاں صدیق اور شہید