احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
مگر یہ سب کچھ اہل اسلام کو مرزا کی خاطر اور اس کی پیشین گوئی کی بدولت دیکھنا نصیب ہوا۔ مرزا نے اس پیشین گوئی کی تاویل ایک عجیب طرح پر کر دی کہ عبداﷲ آتھم اس لئے نہیں مرا کہ وہ دل میں اسلام کی طرف رجوع کر گیا ہے۔ جس پر ملا محمد بخش صاحب منیجر اخبار جعفرز ٹلی لاہور نے عبداﷲ آتھم کو خط لکھا اور پوچھا کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ دل میں ڈر گئے اور عظمت اسلام کے قائل ہوگئے؟ مگر عبداﷲ آتھم نے تحریری خط اپنے ہاتھ سے لکھ بھیجا کہ میں ہرگز عظمت اسلام کا قائل نہیں ہوا۔ جیسا کہ میں پہلے عیسائی تھا، ویسا ہی اب تک ہوں۔ جس خط کو ملاّ صاحب موصوف نے چھپا کر مفت تقسیم کیا جو ذیل میں درج کیاجاتا ہے۔ ڈپٹی عبداﷲ صاحب کا خط آمدہ مورخہ ۲۷؍ستمبر ۱۸۹۴ء جناب محسن بندہ جناب مولانا محمدبخش صاحب، مالک اخبار جعفرز ٹلی لاہور! تسلیم!آپ کے خط کے جواب میں قلمی ہے کہ میں اپنے ایمان مسیحی کی بابت مفصل اخبار نور افشاں وغیرہ میں اشتہار دے چکا ہوںکہ میں سچے دل سے عیسائی جس طرح تھا، ویسا ہی اب تک اپنے ایمان پر قائم ہوں اور ہرگز اسلام کی طرف ذرا بھی مائل نہیں ہوا۔ نہ ظاہراً نہ باطن میں۔ تو اب فرمائیے کہ اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہوں۔ جو آدمی کچھ بھی عقل رکھتا ہے۔ اس سے صاف جان سکتا ہے۔ باقی رہا مرزا قادیانی کاشرط لگانا کہ آتھم قسم کھا کریہ بات کہہ دے۔ سو صاحب من!میرے مذہب میں تو قسم کھانا منع ہے۔ متی کی انجیل میں صاف لکھا ہے کہ ’’تم ہرگز قسم مت کھاؤ۔‘‘ ہاں کی ہاں اور نہ کی ناں ہونی چاہئے اور ہزار دو ہزار روپیہ کی شرط لگانا تو ایک طرح کی جوا بازی ہے۔ میرے خیال اور میرے مذہب میں اس طرح کا لالچ بھی منع ہے۔ مرزا قادیانی کی مرضی جو چاہیں سو کہتے جائیں۔ میںتو پہلے بھی یہ دعا مانگتا تھا اور اب بھی یہی دعا مانگتا ہوں کہ ’’یا خدا تعالیٰ! تو مرزا قادیانی پررحم کر اور اس کو ہدایت کر کہ راہ راست پر آوے اور اس کو صحت اور تندرستی جسمی اوردماغی بخش،آمین۔‘‘ اس سے زیادہ سب کچھ فضول ہے اور میں ایک ضعیف العمر آدمی، قریب ۷۰ سال کی عمر کا ہوں۔ آخر کہاں تک جیوں گا۔ کون جانتاہے کہ کب خدا تعالیٰ بلا لے۔ زیادہ نیاز۔ از مقام فیروز پور۔ آپ کا مشکور بندہ عبداﷲ آتھم پنشنر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر