احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اب یہ واضح ہے کہ آیات مذکور ہ بالا میں لفظ رسول مذکور ہے۔ کسی آیت میں لفظ نبی وارد نہیں ہوا۔ کلام ختم نبوت اور ختم رسالت من اﷲ میں ہے۔ نہ مطلق رسالت میں جس کے معنی تبلیغ کے بھی ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے تو جمیع علماء امت رسل ہوئے۔ سوال… سورہ فاتحہ میں ہے ’’اہد ناالصراط المستقیم صراط الدین انعمت علیہم‘‘ اور سورہ نساء میں ہے ’’ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النّبیین والصدیقین و الشہداء والصالحین‘‘{جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جن پر اﷲ نے انعام کیا۔یعنی نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔} سورہ فاتحہ میں یہ کہا کہ یا اﷲ جن پرتو نے انعام کیا۔ ان کی راہ بتا اور سورہ نساء میں ان کا ذکر کیا جن پر انعام ہوا۔ دونوں آیتوں کے ملانے سے یہ معنی ہوئے کہ یا اﷲ مجھے نبیوں،صدیقوں، شہداء اور صالحین کی راہ بتا۔ جب کسی گروہ کی راہ پر عمل کرے گا تو اسی گروہ میں داخل ہو جائے گا۔ جیسے صالحین، شہداء اورصالحین کی راہ اختیار کرنے سے صالح، شہید اور صدیق بن سکتا ہے۔ اسی طرح نبی کی راہ اختیار کرنے سے نبی بننا چاہئے۔ پھر سورئہ نساء میں بالکل صراحت ہے۔ کیونکہ وہاں یہ فرمایا کہ جو اﷲ اور رسول کی اطاعت کرے گا۔ وہ ان مذکورہ بالا فریقوں کے ساتھ ہو گا۔ ساتھ تب ہی ہو سکتا ہے۔ جب اس گروہ میں داخل ہوا جب صالح کے ساتھ ہونے سے صالح بن سکتا ہے۔ شہید کے ساتھ ہونے سے شہید بن سکتا ہے اور صدیق کے ساتھ ہونے سے صدیق بن سکتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے نبی کے ساتھ ہونے سے نبی نہ بنے۔ جواب… استدلال کی بنیاد دو چیزوں پر ہے(یعنی ہدایت اور مصیبت) سورہ فاتحہ کی آیت سے استدلال کی بنیاد اس امر پر ہے کہ جس فریق کے راستہ پر چلے، اسی فریق میں داخل ہوگا۔ کسی فریق کے راستہ پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اسی قسم کے اعمال اختیار کرے۔ جب صالحین کے اعمال اختیار کرے گا تو صالحین کے گروہ میں داخل ہوگا۔ اگر شہداء یاصدیقین کے اعمال اختیار کرے گا تو شہید یا صدیق بنے گا۔ اسی طرح اگر نبی کے اعمال اختیار کرے گا تو نبی ہوگا۔ اس استدلال میں یہ کمزوری ہے کہ اس میں کسی فریق کے طریق پر چلنے سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اب ہر وجہ سے وہ فریق مذکور کی طرح ہو گیا ہے اور یہ غلط ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ ہر