احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ہیںجو صریح مخالف ہیں اور کیوں بار بار دھوکے دیتے ہیں۔ کیوں اپنے پیغمبر مرزا قادیانی او ر ان کے خلیفہ نور الدین کے دستاویزات کو تسلیم نہیںکرتے جن میں کوئی حجت نہیں ہو سکتی اور خلیفہ صاحب مرزائیوں کو سمجھاتے نہیں کہ تم’’متوفیک‘‘ کے وہ معنی کرو جو مرزا قادیانی نے براہین احمدیہ میں کئے ہیں یا جو میں نے تصدیق براہین احمدیہ میں کئے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ ’’میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۹۰،خزائن ج۱ص۶۲۰)اور میں لینے والا ہوں تم کو۔ (تصدیق براہین احمدیہ ص۸حاشیہ، مؤلفہ حکیم نورالدین خلیفہ قادیانی) مگر اس پر زیادہ تعجب یہ ہے کہ مرزا قادیانی او ر ان کے خلیفہ بھی اب ان معنوں پرایمان نہیں رکھتے۔ کہیں تو کیاکہیں؟ کریں توکیا کریں؟یہی دھوکہ بازی اوربس۔ پانچواں دھوکہ قولہ… اب ہم دکھاتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں رفع کے معنی کیا آئے ہیں۔ ’’رفع درجات من نشاء یرفع اﷲ الذین امنوامنکم والذین اوتوا العلم درجات‘‘وغیرہ…ہم نے جو کچھ لکھا ہے۔ اس میں یہ ظاہر کیا ہے کہ قرآن میں بھی رفع کے معنی درجے بلند کرنے کے ہیں اورحدیث میں بھی قرب اور درجوں کے بڑھانے کے ہیں۔ بلفظہ ملخصاً (ص۳کالم اول ودوم) اقول مطلب اور منشاء اس دھوکے کا یہ ہے کہ قرآن شریف اور احادیث شریف میں لفظ رفع کے معنی صرف درجات کے بڑھانے اوربلند کرنے کے ہیں اورکوئی معنی نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں جو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں :’’وماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقیناقتل نہیںکئے گئے۔ بلکہ ان کو خداوند کریم نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ دھوکہ یہ ہے اور الٹے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا درجہ اٹھا لیا۔ معلوم نہیں اس آیت میں درجہ کا کون سا لفظ ہے۔ جس قدر آیات و احادیث دھوکہ دینے کو نقل کی گئی ہیں۔ ان سب میں لفظ درجہ تو صاف درج ہے لیکن آیت شریف میں کوئی لفظ درجہ کا درج نہیں ہے۔ بلکہ تمام ضمائر جو ان آیات میں آئی ہیں۔ وہ سب کی سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ اندریں حالت اس آیت شریف کے وہی معنی ہیں جو جمہور مفسرین و مجتہدین و محدثین و مؤرخین نے کئے ہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے مع جسم آسمان پر اٹھالیا۔