احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کوئی رسول نہیں۔ یہ زمانہ فترت کا کہلاتا ہے۔ یہ لوگ بھی اس خطاب میں داخل ہیں۔ مگر ان کے زمانہ میں کوئی رسول نہیں آیا۔ قران مجید میں ہے : ’’لتنذرقوماما اتاھم من نذیر من قبلک (سجدہ:۳)‘‘ {تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے پاس تیرے پہلے کوئی نذیر نہیں آیا۔} مرزا غلام احمد نے بھی لکھا ہے کہ اتنی مدت میں میں ہی نبی کا نام پانے کے قابل ہوا ہوں۔ تیراں سو سال تک کے لوگ باوجود مخاطب ہونے کے کسی رسول کو نہ دیکھ سکے۔ حالانکہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہاں خطاب جنس کو ہے۔ اس کا پورا ہونا اس طرح بھی متصور ہو سکتا ہے کہ بنی آدم میں رسول آئے ہوں نہ یہ کہ ہر قرن میں ہوں۔ جس شخص کو کسی نبی کی تعلیم پہنچے۔ گویا اس کے پاس نبی آ گیا’’لانذرکم بہ ومن بلغ (انعام)‘‘میں تمہارے لئے بھی نذیر ہوں اور اوپر اس شخص کے لئے جس کو قرآن پہنچے۔ پس اب ہمارے لئے رسول و نبی ہیں اور آپ کی شریعت ہمارے لئے واجب التعمیل ہے۔ ۲… آیت میں لفظ ان کا ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں۔ بلکہ بعض جگہ اس کا استعمال غیر واقع پربھی ہوا ہے۔ ’’ان کان للرحمن ولد فانا اول العابدین (زخرف:۸۱)‘‘ {اگر رحمن کی اولاد ہو تو میں اس کا پہلا پرستارہوں۔}ایک جگہ فرمایا ’’اماترین من البشر احدا فقولی (مریم:۲۶)‘‘ {(مائی مریم کو فرمایا)اگرتو بشر سے کسی کو دیکھے تویہ کہہ دے۔} اب اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اگر تو کسی بشر کو دیکھے۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مائی مریم قیامت تک زندہ رہیں۔ ۳… نبوت اور رسالت میں فرق ہے۔ اگرچہ نبوت اور رسالت من اﷲ میں عام و خاص کی نسبت مشہور ہے۔ مگرتتبع او ر استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں عام و خاص من وجہ کی نسبت ہے اور اس نسبت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جیسے بعض نبی رسول نہیں ہوئے۔ اسی طرح بعض نبی نہیں ہوتے جیسے فرشتے رسول مگر بعض کا یہ خیال ہے کہ رسول کا اطلاق کبھی مبلغ پر ہی ہوتا ہے۔ مرزا غلام احمد نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں’’وقفینا من بعدہ بالرسل‘‘ آیا ہے،نہ کہ ’’قفینا من بعدہ بالانبیائ‘‘ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مرادمرسل ہیں۔ خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ۔ (شہادت القرآن ص۲۸، خزائن ج۶ص۳۲۳)