احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
الیّ‘‘ لکھا ہے کہ علی ابن طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ ’’انی متوفیک‘‘ یعنی تجھ کو مارنے والا ہوں۔ بلفظ (ص۲کالم دوم، سطر ۲۳) اقول! ناظرین کو معلوم ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی خود تفسیر عباس موجود ہے۔ جس کی روایت کو تفسیر معالم کے حوالہ سے درج کیا جاتا ہے۔ لازم تھا کہ تفسیر عباس کے حوالہ سے لکھا جاتا۔ مگر جب دھوکہ دینا ہی مراد ہے تو مرزائی صاحب ایسا کیوں کرتے؟ لیجئے حضرت ابن عباسؓ کے معنی جو انہوں نے ممیتک کے لئے ہیں۔ دکھاتے ہیں۔ فرماتے ہیں:’’متوفیک ورافعک علی التقدیم والتاخیر وقد یکون الوفاۃ قبضا لیس بموت۱؎‘‘ بلفظ حدیث شریف کی لغت اورشرح مسلمہ و مقبولہ مرزائیان مجمع البحار جلد ثالث کا صفحہ ۴۵۴۔ یعنی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ جو ممیتک کے قائل ہیں۔ تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات الی الآن کے منکر نہیں ہیں۔ بلکہ وہ حیات الیٰ الآن کے قائل ہیں۔ اس لئے انہوں نے اس آیت کو تقدیم و تاخیر لکھا ہے۔ معنی یوں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے عیسیٰ! میں تجھ کو اپنی طرف اسی جسم عنصری کے ساتھ اٹھانے والا ہوں اور پھر بعد نزول از آسمان مارنے والا ہوں۔ اس عبارت کی تفسیر معالم کی یہ ہے :’’ان ۱؎ حکیم نور الدین صاحب نے امرتسر میں بایام مباحثہ آتھم بدوران گفتگو عام کہا تھا کہ ہم تقدیم و تاخیر کے قائل نہیں اور نہیں چاہتے کہ جس چیز کو خدا نے مقدم کیا ہے اس کو مؤخر سمجھیں۔ لیکن یہ ان کی زبردستی ہے کیونکہ عام قاعدہ نحوی سے کہ معطوف اور معطوف علیہ میں ضروری نہیں کہ مقدم مقدم ہو اور مؤخر مؤخر۔ اگر حکیم صاحب اس قاعدہ کو نہ مانتے ہوں تو قرآن مجید کی ان آیات میں تقدیم و تاخیر کو اسی طرح قائم رکھ کر جس طرح کہ قرآن شریف میں مذکور ہے۔ قائم رکھ کر بتا دیں۔ سورہ مریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ کے بعد اور انبیاء کا قصہ ہے کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان انبیاء سے پہلے تھے اور سورہ انعام کے رکوع میں انبیاء کا ذکر اس ترتیب سے ہے۔ ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، داؤد، سلیمان،ایوب، موسیٰ، ہارون، ذکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسمٰعیل، الیسع، یونس، لوط، علی نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔ اگر حکیم صاحب نہیں چاہتے کہ جس کو خدا نے مقدم کیا اس کو مؤخر کریں اور جس کو خدا نے مؤخر کیا اس کومقدم کریں تو فرمادیں کہ انبیاء اسی ترتیب سے دنیا میں مبعوث ہوئے؟(ایڈیٹر)