احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
’’ینزل الملائکۃ بالروح من امرہ علی من یشآء من عبادہ (نحل:۲)‘‘ {ملائکہ کو اپنی روح امر کے ساتھ جس بندے پر چاہے،اتارے۔} اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے کہ فرشتوں کو اپنا امر(روح) دیگر کسی بندے پراتارنا اﷲ کا کام ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مضارع حال اور استقبال کے لئے ہے۔ یعنی ان دونوں زمانوں سے ایک زمانے کے لئے مستعمل ہے۔ ایک زمانہ کی تعیین کے لئے قرینے کی ضرورت ہوتی ہے جب ایک زمانہ متعین ہو جائے تو دوسرے زمانہ کا ارادہ کرنا منع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کتب نحو میں لکھا ہے۔(شرح جامی) تیسرا جواب یہ ہے کہ اصطفاء کا تعلق انسانوں اور فرشتوں دونوں سے ہے۔ جب ایک فعل دو چیزوں کے ساتھ متعلق ہو تو ضروری نہیں کہ فعل کا تعلق دونوں کے ساتھ برابر ہو۔ پس جب فرشتوں سے رسول آتے رہتے ہیں اور انسانوں میں بند ہو گئے ہیں۔ تو فعل کے صدق کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ فرشتوں میں یہ سلسلہ اصطفاء کا جاری رہے اور انسانوں میں بند ہو جائے۔ یہ سلسلہ فرشتوں میں جاری ہے۔ کیونکہ فرشتوں کو مختلف امورکے لئے بھیجا جاتا ہے۔ جان قبض کرنے کے لئے بھی فرشتے بھیجے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے ’’توفتہ رسلنا (انعام) ‘‘ ہمارے رسول ان کی جان قبض کرتے ہیں وغیرہ۔ سوال… آیت ذیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے۔ ’’یابنی ادم امایا تینکم رسل منکم یقصون علیکم ایاتی (اعراف:۳۵)‘‘ {اے بنی آدم!اگر تمہارے پاس رسول تم میں سے آئیں۔ تم پر میری آیتیں پڑھیں۔} جواب… (۱) اس آیت میں آدم کی نسل کو خطاب ہے۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آدم اوراس کی نسل کو ایک ہاتھ میں لے کر یہ خطاب فرمایا تھا۔ سو یہ وعدہ انبیاء اور رسولوں کے مسلسل آنے سے یہاں تک کہ حضرت محمدﷺتشریف لائے، پوراہوا۔ سوال… یہ آیت سورہ اعراف کی ہے۔ اس آیت میں بنی آدم کو خطاب ہے۔ اس آیت سے پہلے بھی چند باربنی آدم کو خطاب کیا گیا اور وہ خطاب عام ہے۔ جس میں قیامت تک کے لوگ شریک ہیں۔ اس میں بھی شریک ہونے چاہئیں۔ جواب… اس خطاب میں بھی قیامت تک کے لوگ شریک ہیں۔ مگر اس خطاب سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ ہر زمانہ میں رسول آتے رہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ میرے اور مسیح کے درمیان